Daily Roshni News

روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں آپ بھی اپنے بچے یا دوسرے گھر والوں کو وقت نہ دے پا رہے ہوں؟

روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں آپ بھی اپنے بچے یا دوسرے گھر والوں کو وقت نہ دے پا رہے ہوں؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )باپ رات کو دیر سے گھر لوٹ آیا۔ مسلسل کام کرنے کی وجہ سےتھکاوٹ اور چڑچڑاپن محسوس کر رہا تھا۔ اس کا کم سن بیٹا اس کے انتظار میں دروازے کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔

باپ کے بیٹھتے ہی بیٹے نے کہا ابو! کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟

ہاں بیٹا! کیوں نہیں، پوچھو۔

ابو آپ ایک گھنٹے میں کتنا کماتے ہو؟

باپ نےغصے سے کہا یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ اس طرح کا سوال تمہارے ذہن میں آیا کیسے؟

بیٹا بولا بس یوں ہی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ایک گھنٹے میں کتنا کما لیتے ہو؟

باپ: اگر تم ضروری جاننا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے۔ (سوچتےہوئے) 500 روپے۔

بیٹا: او ہو۔۔۔ ۔ (کہتے ہوئے مایوسی سے اپنا سر جھکا لیا پھر اچانک اس کے ذہن میں کوئی بات آئی تو اس نے سر اٹھا کر کہا ابو! کیا آپ مجھے 250 روپے قرض دو گے؟

باپ کا پارا ایک دم چڑھ گیا۔”کیا تم مجھ سے صرف اس وجہ سے پوچھ رہے تھے کہ کسی گھٹیا کھلونے یا اس طرح کی دوسری چیزیں خریدنے کے لیے مجھسے قرض مانگ سکو تو بہتر یہی ہے کہ جاؤ اپنے کمرے میں اور بستر پر سو جاؤ۔ اس طرح کی چھچھوری حرکت کرتے ہوئے تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہے کہ تمہارا باپ ایک گھنٹے میں اتنے پیسے کتنی مشکل اور خون پسینہ بہا کر حاصل کرتا ہے۔”

بیٹا خاموشی سے مڑا اور اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہبند کر دیا۔

باپ صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابھی تکغصے سے بیٹے کے اس حرکت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کیوں اسے مجھ سے اتنے پیسے مانگنے کی ضرورت پڑ گئی؟ گھنٹے بھر بعد جب اس کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا تو دوبارہ سوچنے لگا۔

ہو سکتا ہے کہ اسے کسی بہت ضروری چیز خریدنا ہے جو کہ مہنگا ہوگا اس لیے مجھ سے اتنے پیسے مانگ رہا تھا۔ ویسےتو اس نے کبھی مجھ سے اتنے پیسے نہیں مانگے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بیٹے کے کمرے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا اور پوچھا

کیا تم سو گئے بیٹا؟

بیٹا اٹھ کر بیٹھ بیٹھا اور کہانہیں ابو! جاگ رہا ہوں۔

باپ: مجھے لگتا ہے کہ میں نے تم سے کافی سختی سے پیش آیا۔ دراصل آج میں نے بہت سخت اور تھکا دینے والا دن گزارا ہے۔ اس لیے تم پر ن

اراض ہو گیا۔ یہ لو 250 روپے

بیٹا (خوشی سے مسکراتے ہوئے): بہت بہت شکریہ ابو! واؤ۔

ایک ہاتھ میں پیسے لے کر دوسرےہاتھ کو اپنے تکیے کی طرف بڑھایا اور جب اپنا ہاتھ تکیے کے نیچے سے نکالا تو اس کی مٹھی میں چند مڑے تڑے نوٹ دبے ہوئے تھے۔ دونوں پیسے باہم ملا کر گننا شروع کیا۔ گننے کے بعد باپ کی طرف دیکھا۔

باپ نے جب دیکھا کہ بیٹے کے پاس پہلے سے بھی پیسے ہیں تواس کا غصہ دوبارہ چڑھنا شروع ہو گیا۔

باپ: جب تمہارے پاس پہلے ہیسے اتنے پیسے ہیں تو تمہیں مزید پیسے مانگنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟

بیٹا: دراصل میرے پیسے کم پڑ رہے تھے لیکن اب پورے ہیں۔ اب میرے پاس پورے 500 روپے ہیں۔ (پیسے باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے) ابو! میں آپ سے آپ کا ایک گھنٹہ خریدنا چاہتاہوں۔ پلیز کل آپ ایک گھنٹہ پہلے آ جائیے گا تاکہ میں آپ کے ساتھ کھانا کھا سکوں۔

باپ سکتے میں آ گیا۔ بانہیں پھیلا کر بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور گلوگیر آواز سے اس سے اپنے رویہ کی معافی مانگنے لگا۔

ذرا سوچئے! کہیں ایسا تو نہیں کہ زندگی کی روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں آپ بھی اپنے بچے یا دوسرے گھر والوں کو وقت نہ دے پا رہے ہوں؟

Loading