Daily Roshni News

روشنی مجھے اپنا ہمسفر بنا لیتی ہے۔۔تحریر۔۔۔محمد یاسین خوجہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔محمد یاسین خوجہ))مادہ روشنی کی رفتار نہیں پا سکتا مگر پھر بھی فرض کیجئے

اگر روشنی مجھے اپنا ہم سفر بنا لیتی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک سیکنڈ میں زمین کے محیط پر ساڑھے

سات بار گھوم لوں گا اور خوشی سے جھوم لوں گا۔۔۔

 3۔1 سیکنڈ میں چاند کے اور 3منٹ میں،

 میں مریخ کے مدار کو بھی کراس

کر لوں گا۔۔۔۔

اس کے بعد  5۔5 گھنٹوں کے اندر میں نظامِ شمسی کے سبھی سیارگان کو پیچھے چھوڑ کر  پلوٹو کی دل جوئی

کو بھی پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔

(روشنی کی رفتار پر میرے لیے وقت انتہائی سست ہوجائے گا تقریباً رک ہی جائے گا… یہ سارے حسابات تو روشنی سے کم رفتار اجسام کیلئے ہیں یعنی پوری کائنات کیلئے ہیں)

کیا آپ جانتے ہیں کہ میں روشنی کی صحبت میں (پچھلے 45 سالوں سے مسلسل

چلتے ہوئے) ناسا کے اسپیس کرافٹ وائجر ون کو 25 گھنٹے میں ہی پیچھے چھوڑ جاؤں گا۔۔۔

اتنی زبردست صلاحیت کے حصول پر

آپ اس گمان میں مت پڑنا کہ میں قابلِ مشاہدہ کائنات کے کنارے چھو کر نسل انسانی کو

کوئی فخریہ لمحات مہیا کرنے کے قابل ہوجاؤں گا۔۔۔۔

نہیں بالکل بھی نہیں۔۔۔

بھلے اس رفتار پر وقت میرے لیے ڑک جائے

مگر زمین یا دیگر کائنات کے حساب سے تو

وقت چلتا رہے گا

اپنے لحاظ سے میں جس لمحے سفر شروع کروں گا اسی لمحے نظامِ شمسی، کہکشاں اور

آخر کار قابلِ مشاہدہ کائنات کی حدیں کراس کروں گا۔۔۔

لیکن میں جب سورج کی کشش ثقل سے آزاد ہونے لگوں گا یعنی

اورٹ کلاؤڈز کو کراس کرنے لگوں گا تب زمین پر دو سال کا عرصہ بیت چکا ہوگا

( وائجر ون تیس ہزار سال بعد اسے کراس کرے گا )

اور سب سے قریبی ستارے تک پہنچتے پہنچتے زمین پر 22۔4 سال گزر چکے ہوں گے۔۔۔

(وائجر ون 70 ہزار سال بعد وہاں پہنچے گا)

میرے خیر خواہ میری واپسی کی امید چھوڑتے جا رہے ہوں گے۔۔۔

(چلتے وقت میری عمر اگر 35 سال تھی تو جیسے ہی زمین پر  35 سال گزریں گے، میرا 3 سالہ بیٹا مجھ سے 3 سال بڑا ہو چکا ہوگا۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین کہکشاں میں جس مقام پر موجود ہے

وہ مقام کہکشاں کے مرکز سے 26000 نوری سال اور کناروں سے 75000 نوری سال دور ہے میں اسی لمحاتی سفر میں اگر مرکز تک پہنچ جاتا ہوں تو

زمین پر 26000 سال گزر چکے ہوں گے

اگر اتنے لمبے عرصہ تک انسان زمین پر موجود بھی ہوئے تو کوئی نہیں جانتا ہوگا

کہ کوئی انسان کائناتی سفر پر نکلا بھی تھا۔۔۔

میری خلاؤں میں گمشدگی پر کئی داستانیں رقم ہوکر مٹ چکی ہُوں گی۔۔۔

یہ تو بڑا لمبا عرصہ ہے چند سال کے اندر ہی سبھی یہی سمجھیں گے کہ میں خلاؤں میں کہیں مرکھپ چکا ہوں گا

(کیونکہ روشنی کی رفتار سے سفر شروع کرتے ہی لمحے بھر میں مجھ سے سارے  رابطے ٹوٹ جائیں گے۔۔۔ کوئی سگنل مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا)

مرکز کو کراس کرتا ہوا میں جب کہکشاں کے  کناروں سے نکلوں گا زمین پر 75ہزار سال گزر چکے ہوں گے۔۔۔

شاید زمین والے بھی یہ قصے کہانیوں میں پڑھتے ہوں گے کہ زمین پر کوئی انسان نامی

مخلوق بھی رہتی تھی…

مگر یہ بات کوئی نہیں جانتا ہوگا کہ

میں ایک جیتا جاگتا انسان اپنے اُسی ایک لمحے کے اندر ابھی بھی محو سفر ہوں۔۔۔۔۔

کہکشاں سے نکلنے کے بعد(زمان و مکان کے اعتبار سے) ایک لا محدود اور اربوں سال کا سفر مجھے درپیش ہوگا۔۔۔

جب زمین پر 25 لاکھ سال گزریں گے میں اس وقت اینڈرومیڈا گلیکسی کے اندر داخل ہو رہا ہوں گا۔۔۔

اس وقت شاید زمین اپنی ساری خوبصورتی کھو کر ایک بے آب و گیاہ ریگستان بن چکی ہوگی۔۔۔۔۔۔

کائناتی اعتبار سے

5ارب سال بعد نظامِ شمسی بکھر چکا ہوگا

اور میں وہی الوداعی منظر آنکھوں میں لیے وقت سے بےنیاز ہوں گا جو زمین سے نکلتے وقت میں نے دیکھا تھا

میری فیملی اور دوست احباب کی ہاتھ ہلاتی تصاویر میرے ذہن میں محفوظ ہوں گی۔۔۔

اتنے لمبے وقت کے بعد بھی کائنات کے کناروں کو چھونے کے مشن کے لحاظ سے میرا یہ سفر انتہائی ابتدائی ہوگا۔۔۔۔

چونکہ کائنات روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے سے پھیل رہی ہے اس لیے

اگر کائنات سلامت رہی تو میں یونہی ہمیشہ چلتا رہوں گا نہ میرا سفر ختم ہوگا اور نہ قابلِ مشاہدہ کائنات کے کنارے ملیں گے۔۔۔

میں وقت سے آزاد تو نہ ہوا بلکہ وقت کے اُسی لمحے کا نیم بیہوش قیدی بن چکا ہوں گا۔۔۔۔۔

اور کائنات کے خاتمے کے ساتھ ہی میں بھی اسی غنودگی میں ہی موت کو گلے لگا لوں گا۔۔۔

روشنی کی رفتار پا لینے پر مجھے کیا حاصل ہوگا کچھ بھی نہیں۔۔۔

دوران سفر میرے پیچھے مجھے فقط اندھیرا نظر آئے گا اور آگے صرف روشنیوں کی چکا چوند میری بصارتوں کو اندھا کر دے گی۔۔۔

میں  کوئی مشاہدہ نہ کر سکوں گا اور ایک بیزار کن اور رائیگاں سفر کے ساتھ میری ہستی بھی رائیگانی کی مثال بنے گی۔۔۔

#محمدیاسین_خوجہ

Loading