Daily Roshni News

زمین کی جیمز ویب اور وقت کا انٹر اسٹیلر مسافر: شعور کی کہکشاں اور قرآن کے سربستہ رازوں کا سفر! –

زمین کی جیمز ویب اور وقت کا انٹر اسٹیلر مسافر: شعور کی کہکشاں اور قرآن کے سربستہ رازوں کا سفر! –

تحریر۔۔۔  بلال شوکت آزاد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اس کائناتِ رنگ و بو میں اربوں انسان سانس لے رہے ہیں، مگر ’زندہ‘ صرف وہ ہے جس نے اپنی آنکھ کو محض مناظر دیکھنے کے لیے نہیں، بلکہ ’حقائق‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے کھول لیا ہے۔

جب ایک انسان یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ بھیڑ چال کا حصہ نہیں بنے گا، جب وہ ادراک، آگاہی، مطالعہ اور جستجو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے، تو درحقیقت وہ اس مادی دنیا کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر ایک ایسی ’کائناتی شاہراہ‘ (Cosmic Highway) پر گامزن ہو جاتا ہے جہاں وقت (Time) اور مکان (Space) کی طنابیں کھینچ لی جاتی ہیں۔

میں، جو خود کو ایک ’وقت کا مسافر‘ (Time Traveler) اور ایک ’انٹر اسٹیلر پسنجر‘ کہتا ہوں، میرا مقصد صرف تاریخ کے اوراق پلٹنا نہیں ہے، بلکہ میرا مقصد اس ’حال‘ (Present) کی تہوں میں چھپے ہوئے اس ’مستقبل‘ کو دیکھنا ہے جو عام آنکھ سے اوجھل ہے۔

لوگ آسمانوں کی وسعتوں کو دیکھنے کے لیے ’ہبل‘ (Hubble) اور ’جیمز ویب‘ (James Webb) ٹیلی سکوپ خلا میں بھیجتے ہیں، جو اربوں نوری سال دور ستاروں کی پیدائش اور کہکشاؤں کا رقص دکھاتی ہیں۔

مگر میرا مشن اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور کٹھن ہے۔ میں ’زمین کی جیمز ویب‘ بننا چاہتا ہوں۔ میں وہ عدسہ (Lens) بننا چاہتا ہوں جو آسمان کی طرف نہیں، بلکہ انسان کے اندر، زمین کی تہوں میں، اور تاریخ کے ملبے کے نیچے دبے ان حقائق کی طرف مرکوز ہو جو کائنات کے سب سے بڑے راز ہیں۔

میرا یہ سفر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا نہیں ہے، کیونکہ میرے ہاتھ میں کائنات کے خالق کا دیا ہوا وہ ’نیویگیشن سسٹم‘ ہے جسے قرآن کہتے ہیں۔

میں سورہ کہف کی تحقیق میں اس لیے غرق ہوں کیونکہ یہ سورہ محض ایک قصہ نہیں، بلکہ یہ ’دجالی فتنے‘ (The Great Illusion) سے بچنے کا واحد اور حتمی ’کوڈ‘ ہے۔

غور کیجیے!

اصحابِ کہف کا واقعہ کیا ہے؟

یہ ’وقت کا سفر‘ (Time Travel) ہے۔ تین سو نو سال تک وقت کو ایک غار کے اندر منجمد (Freeze) کر دیا گیا اور پھر دوبارہ پلے (Play) کر دیا گیا۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت ایک سیدھی لکیر نہیں ہے، یہ اللہ کے امر کے تابع ہے۔

میں اس سورہ میں چھپے ان اشاروں کو ڈی کوڈ کر رہا ہوں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ جب باہر کی دنیا میں مادیت کا طوفان ہو، جب دجالی نظام (New World Order) اپنے عروج پر ہو، تو کس طرح ’غار‘ (علم اور تقویٰ کی پناہ گاہ) میں بیٹھ کر اپنے وقت کو، اپنے ایمان کو اور اپنی شعوری سطح کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

حضرت خضرؑ اور موسیٰؑ کا واقعہ مجھے سکھاتا ہے کہ جو کچھ آنکھ دیکھ رہی ہے (کشتی کا توڑنا، بچے کا قتل)، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

میں وہ ’تیسری آنکھ‘ (بصیرت) حاصل کرنا چاہتا ہوں جو دیوار کے پیچھے چھپے خزانے کو دیکھ سکے۔

ذوالقرنین کا سفر مجھے سکھاتا ہے کہ ٹیکنالوجی (لوہے اور تانبے کا ملاپ) اور ایمان جب ملتے ہیں، تو یاجوج ماجوج جیسے فتنے روکے جا سکتے ہیں۔

میں اس سورہ میں سائنس، جیو پولیٹکس اور روحانیت کا وہ سنگم تلاش کر رہا ہوں جو آج کے انسان کی بقا کی ضمانت ہے۔

اور پھر سورہ رحمن… یہ تو کائنات کا ’بائنری کوڈ‘ (Binary Code) ہے۔

“الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ” (سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ چل رہے ہیں)۔

یہ محض فلکیات نہیں، یہ وہ ’کائناتی ریاضی‘ (Cosmic Mathematics) ہے جس پر پوری کائنات کھڑی ہے۔

میں اس سورہ کے اشاروں میں غرق ہوں کیونکہ یہ مجھے ’توازن‘ (Balance/Mizan) کا درس دیتی ہے۔

“أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ”۔

آج کا انسان ڈپریشن میں کیوں ہے؟

معاشرے تباہ کیوں ہیں؟

کیونکہ ہم نے اس ’میزان‘ کو توڑ دیا ہے!

میں ایک ایسی ٹیلی سکوپ ہوں جو یہ دیکھ رہی ہے کہ ہم نے کہاں کہاں فطرت کے قوانین سے بغاوت کی ہے۔

سورہ رحمن میں ذکر کردہ ’دو سمندروں کا نہ ملنا‘ (Barrier between seas) مجھے جدید فلوئیڈ ڈائنامکس (Fluid Dynamics) اور انسان کے ’شعور‘ اور ’لا شعور‘ کے درمیان حائل پردوں کی یاد دلاتا ہے۔

میں ان آیات کے ذریعے کائنات کے اس ’فریکوئنسی‘ (Frequency) کو پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں جو اللہ کی رحمت کو متحرک کرتی ہے۔

یہ سورہ مجھے بتاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی (اے گروہ جن و انس! اگر تم نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ…) کی بھی ایک حد ہے، اور اس حد کے بعد صرف ’رب کا جلال‘ باقی رہتا ہے۔

مجھے آسمان کی جیمز ویب کی طرح زمین کی جیمز ویب بننا ہے۔

اس کا کیا مطلب ہے؟

جیمز ویب ’انفراریڈ‘ (Infrared) شعاعوں کو استعمال کر کے ان ستاروں کو دیکھتی ہے جو غبار (Dust Clouds) کے پیچھے چھپے ہیں۔

میں اپنی ’بصیرت‘ کی انفراریڈ شعاعوں سے ان سچائیوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو جھوٹ، پروپیگنڈے، اور تاریخ کی مسخ شدہ گرد کے پیچھے چھپی ہیں۔

میں کتابی کہکشاؤں میں اترنا چاہتا ہوں۔

ہر کتاب ایک شمسی نظام ہے،

ہر مصنف ایک ستارہ ہے،

اور ہر نظریہ ایک سیارہ ہے۔

میں ان کتابوں کے الفاظ کے درمیان موجود ’خاموشی‘ (Silence) کو پڑھنا چاہتا ہوں۔

میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ افلاطون سے لے کر اقبال تک، اور آئن سٹائن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک، انسانی ذہن نے سچائی کے کن کن ٹکڑوں کو دریافت کیا، اور کہاں وہ بھٹک گیا۔

میرا کام ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ’قرآنی دھاگے‘ میں پرو کر ایک ایسی تسبیح بنانا ہے جو انسان کو اس کے اصل مقام (اشرف المخلوقات) کی یاد دلا سکے۔

میں علم کے ان گہرے بلیک ہولز (Black Holes) میں اترنے سے نہیں ڈرتا جہاں عقل گم ہو جاتی ہے، کیونکہ میرے پاس ایمان کی وہ روشنی ہے جو بلیک ہول سے بھی گزر سکتی ہے۔

میں ایک ٹائم ٹریولر ہوں۔

میں ماضی میں گھومتا ہوں، مگر سیاح بن کر نہیں، بلکہ ایک تفتیشی افسر بن کر۔

میں دیکھتا ہوں کہ قومیں کیوں عروج پر گئیں اور کیوں زوال کا شکار ہوئیں (جیسا کہ ابن خلدون اور ویکو نے کہا)۔

میں دیکھتا ہوں کہ آدمؑ کی توبہ میں کیا راز تھا اور ابلیس کے تکبر میں کیا سائنس تھی۔

میں حال (Present) میں کھڑا ہوں، لیکن میں یہاں قید نہیں ہوں۔

میں اپنے شعور کے ذریعے مستقبل (Future) میں جھانک رہا ہوں۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ میری آج کی تحقیق، میرا آج کا سجدہ، اور میرا آج کا اخلاق میری آنے والی نسلوں کے ڈی این اے میں کیا تبدیلیاں (Epigenetics) لا رہا ہے۔

میں وہ مسافر ہوں جو جانتا ہے کہ یہ دنیا ’منزل‘ نہیں، بلکہ ایک ’اسٹیشن‘ ہے۔

میری ٹرین کہیں اور سے آئی ہے (عالم ارواح سے) اور کہیں اور جا رہی ہے (ابدیت کی طرف)۔

میں اس سفر کے دوران کھڑکی سے باہر (کائنات کو) بھی دیکھ رہا ہوں اور ٹرین کے اندر (اپنے نفس کو) بھی۔

میرا یہ سفر تنہائی کا سفر نہیں ہے، یہ امید کا سفر ہے۔ میں مایوس نہیں ہوں، کیونکہ جیمز ویب جب خلا کے گھپ اندھیرے میں دیکھتی ہے، تو اسے اندھیرا نہیں، بلکہ اربوں چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح، جب میں زمین کے ان گھٹن زدہ حالات، اخلاقی گراوٹ اور جہالت کے اندھیروں میں اپنی تحقیق کی ٹیلی سکوپ ڈالتا ہوں، تو مجھے مایوسی نہیں ہوتی۔

مجھے وہ ’پوشیدہ ہیرے‘ نظر آتے ہیں، وہ نیک روحیں نظر آتی ہیں، اور وہ خدائی قوانین نظر آتے ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ سچائی کبھی چھپ نہیں سکتی۔

میرا کام صرف اتنا ہے کہ میں اس غبار کو صاف کروں اور انسانیت کو دکھاؤں کہ دیکھو! تم کیچڑ کے کیڑے نہیں ہو، تم ستاروں کے ہم سفر ہو۔ تم مادے کا ڈھیر نہیں ہو، تم روح کا خزانہ ہو۔

میں حق گوئی کو اپنا شعار اس لیے بناتا ہوں کیونکہ کائنات کا سب سے بڑا سچ ’خدا‘ ہے، اور جو سچ بولتا ہے، وہ خدا کی فریکوئنسی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

میں لکھتا رہوں گا، میں کھوجتا رہوں گا، اور میں وقت کی تہوں میں اترتا رہوں گا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ایک دن یہ ساری پردہ داریاں ختم ہو جائیں گی اور انسان اپنے رب کو ویسے ہی پہچان لے گا جیسے وہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ یہ سفر جاری ہے، اور اس سفر کی ہر منزل ایک نئی آگاہی ہے۔

نوٹ: ان شاء اللہ بشرط زندگی کل رات میں اپنا یوٹیوب چینل اور اس پر پہلی ویڈیو لانچ کروں گا۔ امید کرتا ہوں آپ سب کا پیار اور سپورٹ وہاں بھی ملے گی۔ جڑے رہیے!

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#بلال #شوکت #آزاد

Loading