Daily Roshni News

سائنسی فطرت کے علوم اللہ تعالیٰ کی صفات کے علوم حاصل کرنے کا عمل ہے۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا)

سائنسی فطرت کے علوم

اللہ تعالیٰ کی صفات کے علوم

انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا)

ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی )سائنسی (فطرت کے علوم) اللہ تعالیٰ کی صفات کے علوم حاصل کرنے کا عمل ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے بعد بندہ اپنے رب کا تعارف حاصل ہوتا ہے یعنی وہ اپنے علم کی سطع کے مطابق اللہ پاک کا عارف بنتا جاتا ہے۔فطرت کے علوم کو ہی ساٸنس کہا جاتا ہے۔اور اس علم کو حاصل کرنا ہی حقوق اللہ ہے۔قرآن کریم میں ہے۔ ”اللہ فاطرالسمٰوٰت والارض“ ترجمہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنےوالا،بنانے والا ہے۔ اللہ کریم کی فاطر کی صفت کے علم کو ساٸنس کہا جاتا ہے۔ ساٸنس لفظ کوٸی نٸی اصطلاح نہیں ہے۔ یہ شروع سے ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔ علوم کو عربی میں ساٸنس کہا جاتا ہے۔ گوگل پہ جاکہ علوم لکھیں تو اس کا ترجمہ ساٸنس آجاٸیگا۔ ایک طبقہ ہی سمجھتا ہے کہ ساٸنس انگریزی علم کو کہا جاتا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔انگریزوں نے  بھی ہمارے بیان کردہ قرآنی  علوم انگریزی زبان میں حاصل کیا مسلمان ساٸنسدانوں سے،انکی لکھی ہوٸی کتابوں سے اورپھر ان سارے علوم کی شاخوں کو اپنی زبان میں ترجم کراکے ان علوم کو سکھانا شروع کردیا جہاں جہاں وہ فاتح بنتے گٸے۔ زبانیںlanguages الگ ہے اور علوم /ساٸنس الگ ہے۔ جیسے اردو ،سندہی یا عربی وغیرہ زبانوں میں ساٸنس پڑھاٸی اور سکھاٸی جاتی ہے۔ یہی علوم جب مسلمان بادشاہ مغل فارسی  میں پڑھاتے اور سکھاتے تو ہم بغیر کسی اعترض کے سیکھے رہتے تھے اور کہتے تھے ”فارسی گھوڑے چھاڑسی“ مطلب فارسی زبان سیکھنے کے بعد status بڑھ جاٸیگا۔ اختلاف کا مسٸلا تب ہوا جب انگریزوں نے مغل بادشاہوں سے ہندوستان فتح کیا۔ ان کے مسلمان ہی  دشمن ٹھرے کیونکہ ہر بادشاہوں کا یہی دستور رہا ہے کہ   جس سے وہ سلطنت چھینتے ہیں تو انکو بھرپور طریقے سے کچلتے ہیں۔ تاریخ پڑھا ہوا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ خود مغلوں نے اپنے بھاٸیوں کے ساتھ کیا کیا ۔ بابر، ہمایوں، اکبر  عالمگیر، شاہجہاں، نے کیسے ہندوستان کی گدی حاصل کی۔ انگریزوں نے بھی مسلم بادشاہوں کے ساتھ وہی کیا جو مسلمان بادشاہوں گدی حاصل کرنے کیلیے اپنے ہی بھاٸیوں کے ساتھ کیا۔ انگریزوں کے علوم اب بھی وہی قرآنی علوم ہی ہیں فرق یہ ہے کہ پہلے مسلمان قرآنی علوم ہی مسلمانوں کا تعلیمی نظام رہا جو عربی اور فارسی میں تھا جو کہ اب انگریزی اور ہوسکتا ہے جاپانی،چینی اور بعد میں جو بھی بادشاہ بنے انکی زبانوں میں سکھاٸے جاٸیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نھیں کہ sciences بادشاہوں کا علم ہوگا۔ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ سکھانے/ھدایات کا ذریعہ medium of instructions بادشاہی زبان رہے۔ مسلمانوں کو چاہیۓ کہ انگریزوں سے بھلے وہ دشمنی رکھیں لیکن علوم sciences نہ رکھیں۔ کیونکہ یہ ہمارے/مسلمانوں کے قرآنی علوم پر کی گٸی تحقیق،تجربات،مشاہدات کے بعد نتاٸج کے بعد نظریات theories ہیں جو اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکھاٸے جاتے ہیں۔ اگر کچھ عملی کام یا ترقی کرنی ہے تو ویسا ہی کریں جیسا انگریزوں نے شروع میں کیا تھا یعنی عربی اور فارسی کتب کے تراجم کراکے اپنے تعلیمی نصاب میں داخل کیا تھا۔ آپ بھی انگریزی زبان سے تراجم کراکے اردو یا سندھی زبان میں اپنا تعلیمی نصاب بناٸیں۔ اور اسے اپنی نسلوں میں منتقل کریں۔ لیکن اللہ تعالی کے حقوق  پورے کریں یعنی علومsciences a ضرور بالضرور حاصل کرنے کا بندوبست کریں۔ فطرت کے علوم natural sciences حاصل کریں جو اللہ تعالی کے تعارف کے علوم ہیں۔ انہی علوم کو قرآن میں آیتہٗ،آیاتنا میں غور وفکر کرنے کی بہت تاکید کی گٸی ہے۔ یہ علوم اب اسکولوں میں پڑھاٸے اور سکھاۓ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان علوم/ساٸنس کو اللہ تعالی کا بندوں/استادوں کے اوپر حق ہے کہ وہ ان علوم sciences کو دینی علوم سمجھتے ہوٸے اپنا فرض پوری ایمانداری سے ادا کریں یہی اعمالہ صالحہ ہیں اور ان کو مخلوق کے فاٸدے میں استعمال کریں ، یہی حقوق العباد ہیں۔ مختصراً کہ فطرت کے علوم (natural sciences) سیکھ کر مخلوقِ خدا  (حقوق العباد social science)کے فاٸدے میں سچاٸ,ایمانداری اور skillfuly استعمال کریں۔

Loading