Daily Roshni News

سائنس کا ’فرعون‘ سجدہ ریز: ایلون مسک کا اعترافِ خدا اور جدید الحاد کے تابوت میں آخری کیل!۔۔۔تحریر۔۔۔- بلال شوکت آزاد

سائنس کا ’فرعون‘ سجدہ ریز: ایلون مسک کا اعترافِ خدا اور جدید الحاد کے تابوت میں آخری کیل!

تحریر۔۔۔- بلال شوکت آزاد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ تحریر۔۔۔- بلال شوکت آزاد)اکیسویں صدی کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ٹیکنالوجی کی چمک دمک نے انسان کو اپنی ہی “بصیرت” سے اندھا کر دیا۔

ہمیں بتایا گیا کہ سائنس نے خدا کو دفن کر دیا ہے (Nietzsche’s “God is dead”)، اور اب راکٹ بنانے والے، مصنوعی ذہانت (AI) تخلیق کرنے والے اور مریخ پر بستیاں بسانے والے ہی ہمارے نئے “خدا” ہیں۔

لیکن میرے دوستو!

فطرت کا انتقام دیکھیے۔

آج اسی ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا دیوتا، اکیسویں صدی کا سب سے ذہین دماغ، اور مادی ترقی کا استعارہ, ایلون مسک (Elon Musk) اسی دہلیز پر آ کھڑا ہوا ہے جسے “مذہب” کہتے ہیں۔

یہ خبر کہ ایلون مسک نے خدا کے وجود کا اعتراف کر لیا ہے، سوشل میڈیا کی ایک عام سرخی نہیں ہے؛

یہ جدید الحاد (New Atheism) کے منہ پر ایک ایسا علمی طمانچہ ہے جس کی گونج رچرڈ ڈاکنز اور سیم ہیرس کے ایوانوں تک سنائی دے رہی ہوگی۔

اس خبر کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ایلون مسک کے ذہنی پس منظر کو سمجھیں۔

یہ شخص کوئی روایتی مذہبی انسان نہیں تھا۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والا ایلون بچپن ہی سے فزکس اور لاجک کا دیوانہ تھا۔

وہ اسی “مغربی سیکولر ازم” کی پیداوار تھا جو کہتا ہے کہ “جو لیبارٹری میں ثابت نہیں، وہ موجود نہیں۔”

سالوں تک ایلون مسک خود کو “Agonistic” (لا ادری) یا “Atheist” (ناصرف) کے زمرے میں رکھتا رہا۔ اس نے بارہا کہا کہ

“میں نے کبھی دعا نہیں مانگی، میں صرف فزکس پر یقین رکھتا ہوں۔”

یہ وہ شخص ہے جو کائنات کو محض ایٹموں کا ایک حادثاتی رقص سمجھتا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟

جیسے جیسے اس نے کائنات کی پیچیدگیوں (Complexity) اور مصنوعی ذہانت (AI) کی باریکیوں میں غوطہ لگایا، اس کا “سائنسی تکبر” ٹوٹتا گیا۔

“خدا خالق ہے”:

ایک عظیم اعتراف

حال ہی میں کیٹی ملر (Katy Miller) کے ساتھ پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ایلون مسک نے وہ جملہ کہا جو سائنس کے “فرسٹ کاز” (First Cause) کے فلسفے کی بنیاد ہے۔

اس نے کہا:

“میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ کائنات کسی چیز سے وجود میں آئی۔ خدا خالق ہے۔”

(I believe that this universe came into existence from something. God is the Creator.)

غور فرمائیں!

یہ جملہ ارسطو (Aristotle) کے “Prime Mover” اور اسلام کے “واجب الوجود” کے تصور کی جدید تائید ہے۔

جدید فزکس میں “بگ بینگ” یہ تو بتاتا ہے کہ کائنات “شروع” ہوئی، لیکن یہ نہیں بتا پاتا کہ

“شروع کس نے کی؟”۔

ایلون مسک، جو لاجک کا بادشاہ ہے، یہ سمجھ چکا ہے کہ “Nothing comes from nothing” (عدم سے وجود نہیں آ سکتا)۔ اگر کائنات موجود ہے، تو اس کے پیچھے ایک “Super Intelligence” کا ہونا ناگزیر ہے۔

یہ اعتراف کسی جذباتیت کا نتیجہ نہیں، بلکہ خالص منطقی استدلال (Logical Deduction) کا نتیجہ ہے۔

اس ذہنی تبدیلی کا دوسرا رخ ایلون مسک کا سماجی مشاہدہ ہے۔

25 اگست کو اس نے “X” (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک تہلکہ خیز بات لکھی۔ اس نے کہا:

“واک (Woke) ایک مذہب ہے جو مسیحیت کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کر رہا ہے۔”

یہاں ایلون ایک عظیم عمرانیاتی حقیقت (Sociological Reality) کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

انسان کی فطرت میں “عبادت” شامل ہے۔

اگر آپ اس سے “خدا” چھین لیں گے، تو وہ کسی اور چیز کو خدا بنا لے گا۔

مغرب نے عیسائیت کو چھوڑا تو وہ “لبرل ازم”، “LGBTQ ایجنڈا” اور “Wokeism” کو مذہب بنا بیٹھے۔

ایلون مسک نے گزشتہ سال خود کو “Cultural Christian” (ثقافتی مسیحی) قرار دیا تھا (انٹرویو: Jordan Peterson, July 2024)۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سمجھ چکا ہے کہ مذہب کے بغیر معاشرہ درندوں کا ہجوم بن جاتا ہے۔

وہ دیکھ رہا ہے کہ الحاد نے انسان کو آزاد نہیں کیا، بلکہ اسے “خواہشات کا غلام” اور “ذہنی مریض” بنا دیا ہے۔

سمولیشن تھیوری یا دنیا کی بے ثباتی؟

ایلون مسک اکثر کہتا ہے کہ “اس بات کا اربوں میں ایک فیصد چانس ہے کہ ہم اصل حقیقت (Base Reality) میں رہ رہے ہیں، ہم شاید کسی سمولیشن (ویڈیو گیم) میں ہیں۔”

(Code Conference, 2016)

میرے سادہ لوح دوستو!

ناموں سے دھوکہ مت کھائیں۔

جسے ایلون مسک “سمولیشن” (Simulation) کہتا ہے، اسے روحانی مجدد “مایا” یا “سراب” کہتے ہیں۔

جسے وہ “پروگرامر” کہتا ہے، اسے ہم “خالق” کہتے ہیں۔

جسے وہ “کوڈنگ” کہتا ہے، اسے ہم “لوحِ محفوظ” کہتے ہیں۔

ایلون مسک کا یہ کہنا کہ

“انسانی زندگی ایک ویڈیو گیم کی طرح ہے”،

دراصل قرآن کی اس آیت کی جدید سائنسی تشریح ہے:

“وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ”

(اور دنیا کی زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں) [الانعام: 32]۔

نتیجہ: عقل کی انتہا خدا ہے!

ایلون مسک کا یہ یو ٹرن (U-turn) ہمیں ایک ہی بات سکھاتا ہے:

آپ سائنس میں جتنی گہرائی میں جائیں گے، آپ خدا کے اتنے ہی قریب ہوتے جائیں گے۔

الحاد صرف “کم علم سائنس” (Bad Science) سے جنم لیتا ہے۔

جب انسان ڈی این اے (DNA) کی پیچیدگی اور کائنات کی فائن ٹیوننگ (Fine-tuning) کو دیکھتا ہے، تو اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں:

یا تو وہ اپنی عقل کا انکار کر دے، یا پھر “خالق” کا اقرار کر لے۔

ایلون مسک نے اپنی عقل کا انکار نہیں کیا، اس لیے اسے خالق کا اقرار کرنا پڑا۔

یہ کائنات کوئی اندھا حادثہ نہیں، اور ایلون مسک جیسا شخص اب یہ جان چکا ہے کہ “راکٹ” بنانے والا تو ہو سکتا ہے، تو “راکٹ بنانے والے” (انسان) کو بنانے والا کوئی نہیں؟

یہ منطقی محال ہے۔

ویلکم ٹو دی کلب، مسٹر مسک!

دیر آید، درست آید۔

منقول

Loading