ساس کو بھی چاہئے کہ گھر کی الجھنیں اور پریشانیاں اپنی شادی شدہ بیٹیوں کو بتانے کی بجائے بہو کو بتائیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج کے دور میں ساس اور بہو کے رشتے میں بھی مادیت کا عنصر غالب نظر آتا ہے ۔ ساس اور بہو کسی ندی کے دو کنارے ہوتے ہیں جو کبھی مل نہیں سکتے۔ یہ آخری سانس تک دو بدو رہتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رشتو ں کا تقدس اور احترام ہی زندگی کا اصل حسن ہے ۔ والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ بھی زندگی میں ایسے رشتے ہوتے ہیں جن کو ایک خاص تناظر میں ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ،وہ ہیں ’’سسرالی رشتے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر عورت کو ہی ان رشتوں سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔
سب سے زیادہ واسطہ ’’ساس‘‘ یعنی شوہر کی ماں سے ہی پڑتا ہے۔ اکثر گھرانوں میں شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ساس، بہوکے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔اکثر ان جھگڑوں میں گھر کے باقی افراد بھی حصہ لینے لگتے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں شوہر ،کبھی بیوی کی حمایت کرتا ہے تو کبھی ماں کی ۔ اس طرح گھر کا ماحول سکون و چین جاتا رہتا ہے۔
شادی ایسا بندھن ہے جو اپنے اندر بے پناہ خوشیاں سمیٹ کر لاتا ہے۔ اس خوشی کو برقرار رکھنے کے لئے تھوڑے صبر اور برداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے بہو کو چاہئے کہ ساس کی باتوں کو درگزر کرے اور ان کو عزت دے۔
ساس کو بھی چاہئے کہ گھر کی الجھنیں اور پریشانیاں اپنی شادی شدہ بیٹیوں کو بتانے کی بجائے بہو کو بتائیں اور اس سے مشورہ کریں ۔
بہو کو ہر بات پر برا بھلا کہنے کی بجائے اسے پیار محبت سے سمجھائیں تو یقینا حالات مختلف ہونگے۔
آج کے دور میں لڑکیاں ہر رشتے کو نبھانے کی کوشش کرتی ہیں خواہ وہ بیوی کا ہو ، بہو کا ہو، بھابھی کا ہو، دیورانی کا ہو یا پھر جیٹھانی کا۔ وہ اپنے اچھے رویے اور رکھ رکھاؤ سے سسرال میں نام اور جگہ پیدا کرلیتی ہیں
پر ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’جب میں بہو تھی تو مجھے ساس بُری ملی ۔ جب ساس بنی تو بہو بُر ی ملی‘‘
ساس اور بہو کے رشتے پر اس سے خوبصورت حقیقت بیانی پر مبنی اور کوئی بات میری نظر سے نہیں گزری۔
یہ واحد انسانی رشتہ ہے جس کی پیچیدگی پرسرار حد تک عجیب وغریب ہے کیونکہ یہ رشتہ صرف خون کی قربانی مانگتا ہے ۔ارمانوں کا خون ، خواہشات کا خون، محبتوں کا خون، ماضی اور مستقبل کا خون بلکہ ہر اس بات اور منصوبے کا خون جو اس رشتے سے کسی نا کسی طرح منسلک ہوتی ہے ۔
لگتا یو ہے کہ ساس اور بہو اگر کھاتی ہیں تو زہر کھاتی ہیں اور پیتی ہیں تو خون پیتی ہیں۔ ہر صاحب شعور جانتا ہے کہ یہ صرف موضوع ہی نہیں بلکہ ہر ساس اور بہو کا مسئلہ ہے ۔
ہر چولہے کا فساد ہے ۔ ایک ناختم ہونے والی بھیانک لڑائی ہے ۔ یہ گھریلو دہشت گردی ہے جس کا انجام اُس کے آغاز سے بہتر نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ میں سگی بھتیجی یا بھانجی جب بہو کا روپ دھار کر قبیلے میں آتی ہے تو کل کی خالہ یا پھوپھی اچانک ساس بن کر جنگجو سپہ سالار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ نگاہوں اور رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ پابندیوں کے نت نئے پہرے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بہو بھی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے کمر کس لیتی