ساٹھ کی دہائی کاایک بہت بڑا نام ، گلوکارہ نسیم بیگم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ذرا ساٹھ کی دہائی کو یاد کریں ، پاکستان کی فلمی تاریخ کا سب سے سنہرا دور تھا جب ہر شعبہ میں اعلیٰ پائے کے فنکار موجود تھے۔ خصوصاَ فلمی موسیقی میں بڑا زبردست کام ہواتھا اور بڑے بڑے سپر ہٹ گیت تخلیق ہوئے تھے۔اس دور کے موسیقار،نغمہ نگار اور گلوکار ، پاکستان کی فلمی تاریخ کے ہیوی ویٹ کردار رہے ہیں جن کا کبھی کوئی ثانی نہیں رہا۔
ایسے ہی بڑے ناموں میں ایک بہت بڑا نام ، گلوکارہ نسیم بیگم کا تھا جنہیں “نورجہاں ثانی” بھی کہا جاتا تھا سننے والے کہتے تھے ان کی آواز میں سوز و گداز گُندھا ہوا ہے مگر انہوں نے شوخ نغمات بھی یکساں مہارت سے گا کر اپنے آپ کو ورسٹائل گلوکارہ ثابت کیا۔
نسیم بیگم 24 فروری 1936 کو امرتسر میں پیدا ہوئیں اور برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہندوستان سے لاہور منتقل ہوگیا۔ نسیم بیگم کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔۔۔نسیم بیگم کی آواز ملکہ ترنم نورجہاں سے کافی ملتی تھی۔ اس مشابہت کو محسوس کرتے ہوئے موسیقار رشید عطرے نے فلم ’’نیند‘‘ کے دو نغمات میں نور جہاں اور نسیم بیگم کی آوازوں کو یکجا کیا۔ (1) ’’اکیلی کہیں مت جانا زمانہ نازک ہے‘‘ (2) ’’جیا دھڑکے سکھی ری جور سے جی آئی مل کے بلم چت چور سے۔۔۔۔۔
نسیم بیگم کے عروج کا زمانہ 1955 سے1969 تک کا ہے۔ اس دوران ان کی شادی لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے ہوگئی اور ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ان کو پہلا بریک تھرو موسیقار اے حمید نے ایس ایم یوسف کی فلم ’’سہیلی‘‘ نے دلایا جس کے سارے گیت نسیم بیگم نے گائے جو بہت مقبول ہوئے۔
’’ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘،’’کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا‘‘ (سلیم رضا کے ساتھ دو گانا) ’’ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں‘‘،’’مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے‘‘ جیسے مشہور گیت نسیم کی سریلی آواز میں امر ہوگئے۔۔۔
اسی ٹیم کی فلم ’’اولاد‘‘ کے گیت جن کی موسیقی اے حمید نے دی، نسیم بیگم کو فلمی کر یئرکے اوج پر لے گئے۔ ’’تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں‘‘ منیر حسین کے ساتھ) ’’نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیں گے‘‘،’’تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے۔‘‘
اسی سال ریاض شاہد نے فلم ’’شہید‘‘ تخلیق کی، جس کے نغمات نسیم بیگم نے گائے اور بے حد پاپولر ہوئے۔ یہ گانے تھے ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!‘‘، ’’نقاب جب اٹھایا، شباب رنگ لایا، حبیبی ہیا ہیا‘‘،’’میری نظریں ہیں تلوار، کس کا دل ہے روکے وار، توبہ توبہ استغفار‘‘،’’جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے۔
نسیم بیگم نے ایک عروسی گیت ’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ گاکر اسے عوامی گیت بنادیا۔
نسیم بیگم نے چار نگار ایوارڈ مسلسل چار سال جیتے اور پرائڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا۔
وطن کی محبت اور دفاع پر اپنی جانیں نثار کرنے والے پاک فوج کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 1971 میں ایک پر سوز ملی نغمہ تیار کیا گیا، جس کے بول تھے:
اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
یہ نغمہ فضا ؤں میں بکھیرنے والی سریلی آواز بھی نسیم بیگم کی تھی جو اگرچہ 29 ستمبر 1971 کو محض 35 سال کی عمر میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، لیکن یہ گیت آج بھی مختلف سنگرز سے سفر کرتا ہوا زبان زد عام ہے اور ایک نئے سرے سے روح گرما دیتا ہے ۔۔۔۔۔
فلم والے کے توسط سے ایسے گوہر نایاب لوگوں کو یاد کرتے ہوئے ان کی خدمات کو دہرانا اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔ مجھ جیسے کئی لوگ ہوں گے جنھوں نے بس نام سنا ان کا کام ہمیں ڈھونڈنا پڑتا ہے لیکن ان لوگوں کو پڑھ کر جان کر اور لکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ یہ نام زندہ رہنے چاہییں ۔۔۔۔۔
نباعلی /