Daily Roshni News

سب کھو گیا کہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔۔عیشا صائمہ

سب کھو گیا کہیں

تحریر۔۔۔۔عیشا صائمہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ سب کھو گیا کہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔۔عیشا صائمہ)بہزاد اور بہروز  دوست ہونے کے ساتھ ساتھ محلے دار بھی تھے. ساتھ پلے بڑھے. سکول میں اچھے طالب علم ہونے کے علاوہ کرکٹ کھیلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا. انہوں نے اپنی جوانی میں وہ سب کھیل کھیلے. جو گلی محلے کے سب بچے کھیلتے تھے. گلی ڈنڈا، کرکٹ، ہاکی، ٹینس،ان کھیلوں کی وجہ سے ان کی صحت بھی اچھی رہی. اور وہ بہت اچھے طالب علم بھی ثابت ہوئے.  بہت سی منفی سرگرمیوں سے دور رہے.

آج دونوں کی ملاقات کافی برس بعد ہوئی.

تو دونوں اپنے بچپن کے قصے سنانے میں مصروف ہو گئے.

مجتبٰی اور موسیٰ جو ان کے صاحبزادے تھے.

دونوں چھٹی جماعت کے طالب علم تھے.

انہوں نے بہت کوشش کی کہ بچوں کو اس موبائل جیسی آفت سے دور رکھا جائے.

 لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا.

رہی سہی کسر کرونا کی وجہ سے آن لائن کلاسز نے پوری کر دی.

موبائل کا یہ فائدہ تو ہوا کہ بچوں نے گھر بیٹھے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا.

 لیکن اس کا، سب سے بڑا نقصان یہ ہوا. کہ اب بچے موبائل سے دستبردار ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے.

آن لائن کلاسز میں جو کام دیا جاتا تھا اس کو کرنے کے بعد  بھی بچے موبائل فون پر لگے رہتے کہ ہم کام کرنے میں مصروف ہیں.

لیکن آہستہ آہستہ انہیں موبائل فون استعمال کرنے کی عادت پڑ گئ.

اب ہر وہ گیم کھیلتے جو ان کے لئے ضروری نہیں تھی.

بہزاد  نے بتایا میرا چھوٹا بیٹا جو ابھی جماعت اول میں ہے. اس نے بھی وقت مختص کیا ہے. کہ مجتبٰی کے بعد وہ فون استعمال کرے گا.

 اور سب سے زیادہ وہی اس میں ایکٹیو نظر آتا ہے.

بہروزمجھے سمجھ نہیں آتی. میں کیسے ان سب چیزوں سے انہیں دور رکھوں.

کیونکہ ایک کلک پر وہ سب موجود ہے. جو بچوں کی ذہنی عمر کے مطابق نہیں.

ہمارا دور بہت خوبصورت دور تھا. جس

میں محلے کے سب بچے مل کر کھیلتے.

ان کےزہنوں میں آج کی خرافات نہیں تھیں. اوران کی معصومیت قائم تھی.

بہروز نے بھی بہزاد کی تائید کی.

دونوں نے مل کر فیصلہ کیا. کہ ہم اس موبائل جیسی خرافات سے بچوں کو دور کریں گے.

بہروز نے بہزاد کو اپنی فیملی سمیت اپنے گھر آنے کی دعوت دی.

اور دونوں نے جو فیصلہ کیا. اس پر عمل کرنے کا وقت تھا.

دونوں دوست اور ان کے بچے اکٹھے ہوئے. سب نے کھانا کھایا. بہروز اور بہزاد نے سب کو ایک ہال میں جمع کیا.

اور انہیں بتایا کہ وہ انہیں ایک کہانی سنانا چاہتے ہیں.

بہروز اور بہزاد ایک بڑی اسکرین کے سامنے کھڑے ہو گئے.

اب انہوں نے سب بچوں اور فیملیز کے سامنے بولنا شروع کیا.

سب کھو گیا کہیں

ہمارا بچپن اور جوانی

وہ خوبصورت لمحے.

وہ کھیل اور میدان

وہ سردیوں کی راتیں

وہ دادی کی کہانی

ساتھ ساتھ وہ تمام کلپس تصویروں کی شکل میں دکھا رہے تھے.

پھر آیا ایسا زمانہ

جس نے چھینا ہم سے

ہمارا بچپن

ہمارے قیمتی رشتے

ہم اپنے آپ میں کھو گئے

اب بہزاد  بچوں سے مخاطب ہوا.

اور اس نے بتانا شروع کیا.

موبائل جیسی ایجاد جو لوگوں کی بھلائی کے لئے کی گئ تھی.

 آہستہ آہستہ یہ موبائل فون خاص سے عام ہو گیا. اور اس کے عام ہوتے ہی

رشتے بھی ثانوی حیثیت اختیار کر گئے.

پہلے پہل پھر بھی ہم خط، تار اور ٹیلی فون سے رابطے کرنے کے ساتھ رشتوں کی نزاکت اور ان کی اہمیت کو جانتے تھے.

لیکن 2005ء میں پاکستان میں ان تمام سروسز کو بند کر دیا گیا. اور جتنی تیزی سے اس موبائل نے اپنی جگہ بنائی.

اس کے بنانے والے بھی اس بات سے آگاہ نہ ہونگے. کہ کیسے یہ اک نئ ایجاد دنیا کو سمیٹ کر رکھ دے گی.

جہاں سماجی رابطے ایک کلک کی دوری پر مل جائیں گے.

ایک طرف تو سماجی رابطے اتنے آسان ہونگے کہ سمندر پار بیٹھا انسان کچھ سیکنڈز میں دوسرے انسان سے رابطہ کر لے گا. بلکہ اسی ایک کلک پر بیرون ملک تجارتی نظام کو بھی متعارف کرایا جائے گا.

اس کے فائدے تو بہت سے ہویے. تعلیمی نظام بھی سمٹ کر اس موبائل فون میں آگیا.لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ

ہماری آنے والی نسل کا بچپن چھین لیا گیا.

وہ بچے جو جسمانی طور پر مختلف سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے تھے.

انہیں زہنی طور پر مفلوج کیا گیا.

کہ وہ موبائل فون پر ہی پراپیگنڈے سے بھرپور مواد کو دیکھیں. اپنوں سے بیگانہ ہو جائیں.

گھر کا ہر فرد ان خرافات میں مبتلا ہو کر اپنے پاس بیٹھے سگے رشتوں سے انجان ہو گیا ہے.

اسے دنیا میں موجود صورتحال سے تو آگاہی ہے. لیکن اپنوں کی خبر نہیں. یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے. کہ یہ مستقبل کے معمار کس سمت جا رہے ہیں.

کیونکہ موبائل فون نہ صرف زہنی پستی کی طرف لے کے جا رہا ہے. بلکہ اس کے زیادہ استعمال سے ان نونہالوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں.

رات دن اس کا استعمال نظر کی کمزوری کے ساتھ ساتھ جسمانی اور زہنی کمزوری کا باعث ہے..

اس کے استعمال سے نہ تو بچے بھاگنے دوڑنے والے کھیل کھیلتے ہیں.

نہ ہی انہیں دوستی کرنے اور نبھانے کا پتہ ہے. کیونکہ انہوں نے موبائل کو اپنا دوست سمجھ لیا ہے. جو حقیقت میں ان کا سب سے بڑا دشمن ہے.

زندگی موبائل تک محدود نہیں. میں آج کے بچوں سے یہ کہنا چاہوں گا.

کہ اس کے باہر ایک خوبصورت زندگی آپ کی منتظر ہے.

آئیے آگے بڑھیں اور ان کھیلوں ان سرگرمیوں کو اپنائیں جو اصل میں ہمیں اچھی صحت مند زندگی دے سکتی ہیں..

سب بچوں نے وعدہ کیا وہ موبائل کا استعمال ضروری حد تک  کریں گے. تاکہ

وہ اس نئ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن اس کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے.

Loading