Daily Roshni News

سر بازار می رقصم۔۔۔ فقیر لاهور حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ۔۔۔تحریر۔۔۔احمدبن شہزاد

سر بازار می رقصم

حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ

آپ ؒ کی تعلیمات اور کرامات

تحریر۔۔۔احمد بن شہزاد

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سر بازار می رقصم۔۔۔ فقیر لاهور حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ۔۔۔تحریر۔۔۔احمدبن شہزاد)ممتاز مجذوب سالک، روحانی بزرگ اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت سخی شاہ حسین 1539ء (945) میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اس وقت بر صغیر پر مغل بادشاہ اکبر کی حکومت تھی۔ شاہ حسین ” کے والد حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور نام شیخ عثمان رکھا۔ شاہ حسین ابتداء میں جنیوٹ کے قادری صوفی شیخ بہلول کے حلقے میں شامل ہوئے اور زندگی کے اولین چھتیس برس زہد و عبادت میں گزارے، ایک روز قرآن پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ دنیا ایک کھیل کود کے سوا کچھ نہیں“ اس آیت کا شاہ حسین پر ایسا اثر ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لال کپڑے پہن کر زندگی کے بقیہ ستائیس برس جذب و سکر کی حالت میں گزارے۔ اسی بنا پر لال حسین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ عشق حقیقی میں ڈوب کر شاہ حسین کی زبان سے جو کافیاں اور کلام نکلا تقریبا ساڑھے چار سو سال بعد بھی دنیا میں گونج رہا ہے ، برس ہا برس تک خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچانے کے بعد یہ درویش 1599ء بمطابق 1008ھ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ حضرت شاہ حسین کا مزار لاہور کے شالیمار باغ کے قریب باغبانپورہ میں واقع ہے، ہر سال کی طرح اس سال بھی مارچ کے آخری اتوار کو میلہ چراغاں کے موقع پر ان کا 431واں عرس منایا جائے گا۔

بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑہ میں “کلو“ کے مقام سے نکلنے والا دریائے راوی ریاست چمبہ میں سے گزرتا ہوا مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو تا ہے اور اپنے منبع سے صرف 450 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے آپ کو دریائے چناب کے سپرد کر دیتا ہے۔ دریائے راوی لمبائی کے لحاظ سے مختصر سہی لیکن اپنی گزر گاہ تبدیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ 16 ویں صدی عیسوی میں یہ دریا موجود شاہی قلعے سے تھوڑی دور بہتا تھا۔ روز شاہ تغلق کے عہد میں ایک راجپوت سردار جس رائے نے اسلام قبول کیا تھا۔ انہی کی پشت میں سے ایک سپوت شیخ عثمان بافندی لاہور کے ٹیکسالی گیٹ اور موجودہ بادشاہی مسجد کے درمیان محلہ تل بھاگہ ( جسے محلہ ٹلہ اور تل بگھ بھی کہا جاتا تھا) میں رہائش پذیر تھے۔ محلہ تل بھاگہ کا نام وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن سے محو ہو چکا ہے جس زمانے کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اس وقت بادشاہی مسجد کا بھی نام و نشان بھی نہ تھا کیونکہ بادشاہی مسجد 1673ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ شیخ عثمان بافندی کا مکان بادشاہی مسجد کی موجودہ مغربی دیوار کے قریب تھا، اسی مکان میں 945ھ (1538ء) میں ان کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام حسین رکھا گیا، جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے ”شاہ حسین“ کے نام سے امر ہو گئے۔

دس برس کا ایک لڑکا بڑے انہماک سے دریائے راوی کی لہروں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ یہ لڑکا لاہور کے محلہ تل بھاگہ “ میں کپڑا بننے والے ایک شخص شیخ عثمان بافندی کا لخت جگر ”حسین“ ہے۔ حسین کا خاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔

شاہ حسین نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے والد صاحب نے آپ کو ٹیکسالی دروازہ کی جامع مسجد میں شیخ حافظ ابو بکر لاہوری کی خدمت میں شاگردی کیلئے پیش کر دیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا۔ 955ھ میں جب آپ کی عمر تقریبا دس برس تھی ، انہی دنوں چنیوٹ کے معروف قلندر صفت درویش بزرگ حضرت شیخ بہلول دریائی گاہور تشریف لائے اور اس مسجد میں قیام پذیر ہوئے۔ جو ہر شناس نے متلاشی نگاہوں سے بچوں کو دیکھا اور ان نگاہیں حسین پر آکر ٹک گئیں۔ حضرت بہلول نے شاہ حسین کی روشن پیشانی اور ذہین آنکھیں دیکھ کر مولانا ابو بکر لاہوری سے پوچھا کہ اس لڑکے کا کیا نام ہے اور یہ کیا پڑھتا ہے۔“

انہوں نے عرض کی کہ اس کا نام شاہ حسین ہے اور ساتواں پارہ حفظ کر رہا ہے۔ حضرت بہلول نےفرمایا کہ وہ اس بچے سے ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا تھا، حضرت بہلول نے شیخ ابو بکر سے کہا کہ اس رمضان میں شاہ حسین ہمیں قرآن مجید پڑھ کر سنائیں گے۔ اس ارشاد کی تعمیل میں شاہ حسین حضرت بہلول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قرآن سنانے لگے۔ کچھ دن بعد جب چھ سپارے سنا چکے تو حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ ” جتنا مجھے حفظ تھا وہ سنا چکا ہوں“۔ حضرت بہلول نے شفقت سے ان کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا ” اچھا ٹھیک ہے…..! جاؤ میرے وضو کے لیے دریائے راوی سے پانی لے آؤ… تعمیل میں شاہ حسین وضو کیلئے پانی لینے دریائے راوی پر پہنچے اور پانی بھرتے ہوئے دریائے راوی کی لہروں کا مشاہدہ کر رہے تھے کہ ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو اپنے قریب پایا۔ ان بزرگ نے شاہ حسین سے فرمایا ”بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈالو …. انہوں نے ایسا ہی کیا۔ بزرگ نے وہ پانی شاہ حسین کے منہ میں ڈال دیا وہ پانی حلق سے اترتے ہی شاہ حسین کی دنیا ہی بدل گئی۔ ان بزرگ نے شاہ حسین کو ہدایت کی کہ حضرت بہلول سے میر اسلام کہنا۔ شاہ حسین وضو کا پانی لے کر واپس پہنچے اور تمام واقعہ ان کے گوش گزار کیا۔ حضرت بہلول یہ سن کر خوش ہوئے۔ وضو کر کے انہوں نے دور کعت نماز ادا کی اور دعا فرمائی : ”اے اللہ اس بچے پر کرم فرما، اس کو عرفان کی دولت سے مالا مال کر دے، اور اپنا سچا عاشق بنادے۔“ اس کے بعد حضرت بہلول نے شاہ حسین کو اپنی بیعت میں لے لیا اور خصوصی توجہ سے تربیت کرنے لگے۔

حضرت بہلول پنجاب کے مشہور بزرگ حضرت شاہ لطیف بری قادری سہر وردی کے مرید تھے۔ شاہ لطیف سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کو ہدایت کی گئی کہ اب آپ لاہور جاکر ایک طالب علم کی تعلیم کریں۔ اس طرح دس برس کی عمر میں شاہ حسین، شیخ بہلول کی شاگردی میں آگئے۔ حضرت بہلول کی خصوصی تربیت نے شاہ حسین کو علم باطن سے سرفراز فرمایا، حضرت بہلوان جہاں گرد طبیعت کے مالک تھے ، کبھی ایک جگہ مستقل قیام نہیں کیا۔ شاہ حسین کی تربیت کے بعد انہوں نے کوچ کا ارادہ کیا۔ حضرت بہلول، شاہ حسین کو ہمراہ لے کر حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر ہوئے اور شاہ حسین سے فرمایا کہ بیٹا یہ میرے بھی مرشد ہیں اور تیرے بھی مرشد ہیں، اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا۔“

اس کے بعد حضرت بہلول نے شاہ حسین کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ شیخ بہلول پنجاب کے نواحی علاقوں میں محو سفر رہے، آپ 1039 ہجری میں خالق حقیقی سے جاملے، آپ کا مزار پنجاب کے شہر چنیوٹ کے نزدیک ضلع حافظ آباد کی تحصیل پنڈی بھٹیاں کے نواہی گاؤں ”مبہ شاہ بہلول“ میں ہے۔

* شیخ بہلول کے حکم کی تعمیل میں حسین حضرت علی ہجویری کے آستانے پر مجاہدے اور مراقبے میں مصروف رہنے لگے اور عبادت وریاضت میں ایسے محو ہوئے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی۔ کچھ عرصہ دریائے راوی پہ چلہ کشی کی۔ پھر یہ معمول ہو گیا کہ رات بھر حضرت علی ہجویری کے مزار پر تلاوت میں مصروف رہتے، اور صبح روزہ رکھ کر مدرسے چلے جاتے۔ ریاضت کے انہی دنوں میں آپ کو کئی بار حضرت ہجویری کی زیارت بھی ہوئی۔ شاہ حسین ستائیس برس کی عمر تک داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر رہے۔ چھتیس سال کی عمر میں ایک واقعہ ہوا جس نے ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ حضرت شاہ حسین کے اساتذہ میں شیخ سعد اللہ لاہوری کا نام اس لحاظ سے نمایاں ہے کہ وہ اپنے عہد کے جید عالم بھی تھے۔ شاہ حسین ایک بار ملنے کے بعد ہی آپ کے گرویدہ ہو گئے۔ ایک دن لاہور کے شیخ سعد اللہ سے تفسیر پڑھتے ہوئے جب وہ قرآن کی اس آیت پر پہنچے و ما الحیوۃ الدنیا الا لہو و لعب جس کا ترجمہ ہے اور دنیا کی زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے ، تو انہوں نے اپنے شیخ سے اس آیت کی تشریح کے لیے کہا۔ شیخ سعد اللہ نے اس آیت پر درس دیا۔ شیخ سعد اللہ کا درس سن کر شاہ حسین پر وجد طاری ہو گیا۔ حسین دوران درس ہی اٹھ کر رقص فرمانے لگے اور اسی وجد میں لاہور کے گلی کوچوں میں نکل گئے۔

کہتے ہیں کہ شاہ حسین نے زندگی کے بقیہ ستائیں برس جذب و سکر کی اسی حالت میں گزارے، وہ رقص کرتے ، وجد میں رہتے، دھمال ڈالتے اور لال رنگ کے کپڑے پہنتے۔ اسی بنا پر لال حسین کے نام سے مشہور ہو گئے۔ شاہ حسین صاحب حال صوفی تھے ان پر جو کیفیات گزر تھیں، سادہ زبان میں بیان کر دیتے۔ یہ کیفیات ان کی صوفیانہ کلام کی صورت میں آج بھی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ان کی شاعری کے سادہ الفاظ میں بھی گہرے معانی پائے جاتے ہیں۔ ان کی کافیوں میں استعمال کیے گئے عام الفاظ علامتوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف شاہ حسین کی کرامات اور صوفیانہ شاعری سے لوگ جوق در جوق آپ کے عقیدت مند ہو رہے تھے اور دوسری جانب کئی علماء اس حال کو پسند نہ کر رہے تھے۔ یہ وہ دور ہے جب مغل شہنشاہ اکبر تخت پر براجمان تھا، بعض لوگ حضرت شاہ حسین کی شکایت لے کر شہنشاہ اکبر کے دربار میں حاضر ہوئے، اور کہا کہ یہ فقیر نشے میں سر عام رقص کرتا پھرتا ہے۔

کاہے حسین فقیر سانی ں دا

شاہ حسین پہلے صوفی شاعر ہیں جنہوں نے صنف سخن “کافی ” کو اپنایا۔ ان کی کل کافیوں کی تعداد 139 ہے۔ شاہ حسین کی عشق حقیقی میں ڈوبی ہوئی آواز ایک درویش صفت انسان کی آواز ہے جو آج سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل محطہ پنجاب میں گونجی اور دیکھتے دیکھتے پورے بر صغیر میں پھیل گئی۔ شاہ حسین پنجاب کے ان سر کردہ صوفیاء میں سے ہیں جنہوں نے خدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔

 جنگ میں جیون تھوڑا کون کرے جنجال کیندے گھوڑے ، ہستی ، مندر، کیندا ہے دھن نال اے دنیا دن دو اے پیارے، ہر دم نام سنبھال کہے حسین فقیر سائیں دا، جھوٹا سب اے بیوپاراس دنیا میں جینا (عمر) بہت تھوڑے دن کا ہے، کون اس جنجال میں پڑے، کس کے گھوڑے ، شان و شوکت، دھرم ، اور کس کی ہوئی ہے دھن دولت۔

یہ دنیا صرف دو دن کی ہے ، ہر وقت آخرت کی فکر میں لگے رہو پیارے (موت کو یادرکھو) اللہ کا فقیر،

 حسین کہتا ہے ، کہ یہ سب بیوپار ، یعنی دنیا کے دھندے، سب جھوٹ اور فریب ہیں“۔ چرخه بولے سائیں سائیں

 بائیر بولے گھوں

کہے حسین فقیر سائیں دا

میں نا ہیں  سب توں

 چرخہ سائیں سائیں بولتا ہے اور بائیر سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے۔

اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین یہی کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے۔“ قاضی ملا متاں دیندے کھرے سیانے راہ دسیندے عشق کیہ لگے راہ نال، من اٹکیا بے پرواہ نال ندیوں پار رانجھن دا ٹھانہ کیتے قول ضروری جاندا منتاں کراں ملاح نال، من اٹکیا بے پرواہ نال ” قاضی، ملا نصیحتیں کرنے آجاتے ہیں۔ سیانے راہ راست دکھانے آجاتے ہیں۔ عشق کو سیدھے ٹیڑھے راستوں سے کوئی مطلب نہیں۔ ہماری آنکھ تو ذات بے نیاز سے لگ چکی ہے۔ وہ ندی کے پار رہتا ہے اور ہم من کا قول و قرار کر چکے ہیں۔ ملاح کی منت سماجت کررہے ہیں کیونکہ ساجن تو بے نیاز ہے۔

“ مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی

دھواں دُکھے مرے مرشد والا، جاں پھولاں تے لال نی

سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال نی

جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال نی

دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال نی

رانجھن رانجھن پھراں ڈھوڈ بیندی، رانجھن مرے نال نی

کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال نی

”اے ماں !! میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں، میرے مرشد والا دھواں اٹھتا ہے، اور روح کے اندرجھانکوں تو سرخ ہے۔

 تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا، اور جدائی ہی خیال

شاہ حسین کا قصہ سن کر شہنشاہ اکبر کی جبین پر شکنیں نمودار ہوئیں اور کوتوال شہر ملک علی کو حکم دیا کہ :شاہ حسین کو پابہ زنجیر دربار میں پیش کیا جائے“۔ دربار کے سپاہیوں نے شاہ حسین سے احترام۔۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مارچ 2019

Loading