Daily Roshni News

سر بازار می رقصم۔۔۔ فقیر لاهور حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ۔۔۔تحریر۔۔۔احمدبن شہزاد۔۔قسط نمبر2

سر بازار می رقصم

حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ

آپ ؒ کی تعلیمات اور کرامات

تحریر۔۔۔احمد بن شہزاد

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سر بازار می رقصم۔۔۔ فقیر لاهور حضرت سخی مادھو لال شاہ حسین ؒ۔۔۔تحریر۔۔۔احمدبن شہزاد) میں رچ گئی۔ جنگلوں، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا، دکھوں کی روٹی، تکالیف کا سالن، اور آہوں کا ایندھن جلایا۔ میں محبوب کو ڈھونڈتی پھرتی ہوں۔ جب کہ وہ تومیرے ساتھ ہی ہے۔ بے چارا فقیر حسین کہتا ہے ، شاہ ملے گا تب نہال ہوں گا“۔

بریاں کول نہ بہو دے

تیراں تلواراں کولوں،

تکھیاں برہوں دیاں چھریاں وے لوکا

لد سجن پردیس سدھائے

اسیں وداعا کرکے مڑیاں وے لوکا

چے توں تخت ہزارے دا سائیں،

اسیں سیالاں دیاں کڑیاں وے لوکا

سانجھ پات کا ہوں سوں نا ہیں،

 ساجن کھوجن اسیں ! ٹریاں وے لوکا

جنہاں   سائیں دا ناں نہ لتا،

اوڑک نوں اوہ جھریاں وے لوکا

اساں اوگن ہاریاں جیہہ

کہے حسین فقیر سائیں دا

 صاحب سیوں اسیں جڑیاں وے لوکا

” ہم بُرے ہیں بُرے ہیں ، ہم بڑے ہیں اے لوگو نی بُروں کے پاس نہ بیٹھو۔ تیروں اور تلواروں سے بڑھ کر تیز تر عشق و جدائی کی چھریاں ہیں۔

محبوب ہمارا پر دیس چلا گیا ہے، ہم لاچار الوداع کہ کے لوٹ آئے ہیں۔ اگر تو تخت ہزارے کا سائیں ہے تو ہمہ سیالوں کے باسی ہیں۔ صبح شام کی ہم کو خبر نہیں ہم تو

کے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ شاہ حسین نے کہا کہ درویش اور دربار شاہی دریا کے دو کنارے ہوتے سادھ محبوب کی تلاش میں دن رات سرگرداں ہیں۔ جنہوں نے مالک کا نام نہ لیا وہ بالاخر پچھتائیں گے، ہم جیسے گنہگاروں کے لئے رب کا فقیر حسین کہتا ہے ہمارا تعلق تو مالک حقیقی سے جڑا ہوا ہے“۔

 دل درداں کیتی پوری نی، دل درداں کیتی پوری

 لکھ کروڑ جنہاں دے جڑیا، سو بھی جھوری جھوری

بھٹھ پئی تیری چھٹی چادر، چنگی فقیراں دی بھوری

سادھ سنگت دے اوہلے رندے، بدھ تینہاں دی سوری

 کہے حسین فقیر سائیں دا، خلقت گئی ادھوری

 بیشک دل کے درد کی دولت نے مجھے مکمل کر دیا ہے۔ جن کے پاس لاکھوں کروڑوں موجود ہوتا ہے ان کی ذات بھی ادھوری ہوتی ہے۔ تشنگی سے خالی نہیں ہوتی۔ مجھ فقیر کی بھوری چادر بہت بہتر ہے جبکہ سفید چادر تو داغ دار ہے۔ بیشک جو لوگ نیکوں سے فیضان نظر پاتے ہیں ان کی عقل سلیم الطبع ہو جاتی ہے۔ حسین کا تو بس یہی کہنا ہے کہ دنیا سے خلقت ادھوریہی رخصت ہوتی ہے۔

عشق ہوویں “ تاں عشق کماویں

 راہ عشق ہوئی دا ٹکا، دھاگہ ہویں تاں ہی جاویں

 باہر پاک اندر آلودہ، کیہا توں شیخ کہادیں

 کہے حسین بے فارغ تھیویں، تاں خاص مراتبہ پاویں

“عاشق بننا ہے تو عشق حقیقی اختیار کر ، عشق کا راستہ سوئی کے سوراخ کی مانند ہے، دھاگے کی طرح ہو جانفس کو عاشق ہوویں مار کر پھر ہی گزرے گا۔

 ظاہر پاک ہے مگر اندر گندگی ہے تو خود کو شیخ کہلاتا ہے حسین کہتا ہے کہ دنیاوی خواہشات سے فراغت حاصل کر جب ہی تو خاص مر تبہ پاسکے گا۔“

ہیں۔ بہتر ہے مجھے دربار میں جانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ “ سپاہیوں نے اپنی مجبوری پیش کی تو شاہ حسین سپاہیوں کے ہمراہ ہو لیے۔ مغل بادشاہ اکبر نے اپنے درباریوں سے دریافت کیا کون سے مسلک میں سر عام رقص و سرور کی اجازت ہے ….؟ پیشتر اس کے کہ درباری لب کشا ہوں، شاہ حسین نے گفتگو کا آغاز کیا۔

باطن اہل فقر راست یقیں

چہ  شناسد قوم ظاہر بیں

یعنی اہل فقر کی راست باز نگاہیں اندر کا حال جان لیتی ہیں۔ ظاہر میں دیکھنے والی نگاہ کی رسائی وہاں تک نہیں ہو پاتی۔“ یہ کیسے ممکن ہے کہ آنکھ سامنے والی شے کو نظر انداز کر دے“ حکمران وقت شہنشاہ اکبر نے بڑی گہری بات کہی۔ تمام الہامی کتب سے لطیف مخلوقات کا وجود ثابت ہو تا ہے مثلاً جنات، فرشتے وغیرہ ظاہری آنکھ کے مشاہدہ نہ کر سکنے کی بناء پر ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہزاروں اشیاء ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہیں مگر وہ ہمارے گردو پیش موجود ہیں تو کیا ایسی صورت میں ان کی نفی کر دی جائے گی۔ باقی رہی آنکھ کی گواہی تو چاندنی رات میں اشیاء کارنگ وروپ چمکتے آفتاب میں مختلف کیوں ہوتا ہے …؟ کیا اشیاء کی ذات ” بدل جاتی ہے….؟ ہر گز نہیں، تو پھر صفات کیوں بدل جاتی ہیں ….؟ صرف اور صرف نا معتبر گواہی کی بناء پر ….؟” شاہ حسین نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ مغل شہنشاہ نے جھنجھلا کر کہا۔ “تم پر الزام ہے کہ تم اور تمہارے ساتھی سر عام شراب نوشی کرتے ہو اور تم ہمیں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تم لوگ کوئی پاکیزہ مشروب پیتے ہو“ کون کہتا ہے کہ میں شراب پیتا ہوں“ شاہ حسین بے خوف لہجے میں بولے اور کہا ” تو بادشاہ ہے….. لے چکھ میری شراب۔” شاہ حسین نے اپنا مشکیزہ نکالا اور جام میں تھوڑا سا مشروب انڈیل کر اکبر کو پیش کیا۔ اب اکبر نے جام ہونٹوں کو لگایا تو صندل کے شربت کا ذائقہ محسوس ہوا۔ شہنشاہ اکبر نے مزید جام کی فرمائش کی شاہ حسین نے مزید جام انڈیلا۔ اب نہ صرف مشروب کا ذائقہ بلکہ رنگت بھی بدل چکی تھی۔ وہ خالص دودھ بن چکا تھا۔ بادشاہ ابھی حیرت میں گم تھا کہ حسین نے تیسر اجام پیش کیا۔ اس طرح آٹھ بار جام نوش کیا اور ہر مرتبہ مختلف ذائقہ پایا۔ شہنشاہ اکبر نے حیرانگی سے پوچھا “شاہ حسین ایک صراحی میں آٹھ مختلف ذائقے کیسے ساگئے …؟

شاہ حسین نے جواب دیا۔

 گفت بگز رازین و ہیچ میرس

 وحدت فقر میں وہیچ میرس

 یعنی اس بات کو نظر انداز کر جا اور کچھ مت پوچھ ، بغیر سوال کیسے فقر کی وحدت کا نظارہ کر۔“ بھرے دربار میں سناٹا تھا، شاہ حسین نے بادشاہ اور اس کے درباریوں کو حیران و ششدر چھوڑا اور اپنی راہ ہو لیے۔ شہنشاہ اکبر اس واقعہ کے بعد سے شاہ حسین کا معتقد ہو گیا۔ یہ بات بھی مستند ہے کہ اکثر مہمات سر کرنے سے پہلے اکبر نے شاہ حسین سے دعا کی درخواست کی۔

شاہ حسین جب عمر مبارک کے 51 ویں برس میں داخل ہوئے تو آپ کی ملاقات مادھو لعل سے ہوئی۔ مادھو لال ایک برہمن ہندو تاجر کا لڑکا تھا۔ اتفاقاً ایک روز اپنے شاندار لباس میں بازار میں چلا جارہا تھا کہ شاہ حسین کی نگاہیں اس پر جا پڑیں ۔ شاہ حسین نے مادھو لعل کے اندر نور کا ایک جلوہ دیکھا جو شاید ویسا ہی جلوہ تھا جو ان کے استاد محترم بہلول دریائی نے ان میں پہلی ملاقات میں ان میں دیکھا تھا۔ شاہ حسین نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے ،کہاں رہتا ہے….؟

لوگوں نے کہا یہ برہمن زادہ ہے اور قصبہ شاہدرہ میں رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ مادھو لال بھی شاہ حسین ” کےرنگ میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہو گیا اور پھر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھولال حسین کے نام سے جاننے لگے، گویا

وہ دونوں یک جان ہو گئے۔ شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔1601 عیسوی یعنی 1008ھ کا ذکر شاہ حسین اپنے احباب کے ہمراہ شہر سے نکلے۔ کشتی کے ذریعے دریا عبور کیا۔ رخ شاہدرہ کی جانب تھا۔ شاہدرہ کے قریب پہنچ کر کہا کہ ” منزل آگئی”۔

جناب ابھی منزل تو بہت دور ہے۔“ ایک ساتھی نے کہا۔

ایک دوست اگر بڑی چاہت سے بلائے تو انسان کو کیا کرنا چاہیے۔“ شاہ حسین نے پوچھا۔ دعوت کو قبول کر لینا چاہیے۔ “ سب نے متفقہ طور پر کہا۔

بڑی مناسب بات ہے، وفا کا تقاضا بھی یہی ہے۔ “ بڑے عجیب لہجے میں کہا اور ایک چادر ریت پر بچھائی پھر چادر پر لیٹ کر بڑے سکون سے آسمان کی وسعتوں کو بغور دیکھنے لگے اور زیر لب کچھ پڑھتے رہے۔ احباب ادھر اُدھر مشغول ہو گئے۔ اسی دوران پیغام اجل آگیا اور شاہ حسین خالق حقیقی سے جاملے۔

حضرت شاہ حسین کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ شاہ حسین کی ایک پیشگوئی میں دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے باعث آپ کا مدفن باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ مادھولال نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔

35 برس تک شاہ حسین کا عاشق صادق مادھو لال مزار پر خدمات سر انجام دیتا رہا اور پھر 1056ھ میں 73 برس کی عمر میں اپنے پیر و مرشد سے جاملا۔ مادھو لعل کو شاہ حسین کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ حضرت شاہ حسین کا مزار مبارک چار صدیوں سے

باغبان پورہ لاہور شہر میں مرجع خلائق ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی شاہ حسین کا 431 واں عرس محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام مارچ کے آخری ہفتے میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا۔

شاہ حسین کے عرس پر ملک بھر سے لوگ جمع ہوتے ہیں ملنگ دھمال ڈالتے ہیں، شاہ حسین کی کافیاں پڑھی جاتیں ہیں۔ زائرین کی کثیر تعداد شاہ حسین کے مزار پر چراغ جلاتی اور منتیں مانا کرتی ہے۔ اسی مناسبت سے یہ میلہ چراغاں کے نام سےساری دنیا میں مشہور ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مارچ 2019

Loading