Daily Roshni News

سفر جاری ہے(قسط نمبر1)۔۔۔ تحریر۔۔۔ ملک محمد ناصر

سفر جاری ہے

تحریر۔۔۔ ملک محمد ناصر(قسط نمبر1)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سفر جاری ہے(قسط نمبر1)۔۔۔ تحریر۔۔۔ ملک محمد ناصر) ہزاروں تصویر میں بنا کر بھی مصور کی روح بے چین ہے ۔ وہ تصویر کہاں ہے جو اس کی چوکھٹ پر بھی ہے لیکن باہر نہیں آتی؟

نماز جنازہ ادا کی جا چکی تھی ، اجتماعی دعا کے بعد بیت لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے رخصت یہ ہورہے تھے۔ مرنے والے کا آخری دیدار کرنے کے طور بعد رشتہ داروں نے میت کو کندھوں پر اٹھایا اور قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستہ سے گزر کر آخری آرام گاہ کی طرف لے گئے ۔

وہ بے ثبات دنیا اور لوگوں کے رویوں کے بارے میں سوچتا ہوا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ان کے پیچھے چلنے وجہ لگا۔ چاروں طرف قبروں کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے ذہن ان قبروں میں کھو گیا۔ دھوپ کی تپش سے پسینہ میں شرابور تھا۔ سانس پھول گیا تھا۔ کندھے پر رکھے ہو۔ سفید رومال نما کپڑے سے سر اور چہرہ صاف کیا اور ایک پختہ قبر کی سلیب پر بیٹھ گیا۔ میت کو قبر میں اتارنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ لوگ ہو۔ قبر کے دائرہ میں کھڑے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے مشورے دے رہے تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا۔ چاروں طرف دور تک چھوٹی بڑی، اونچی نیچی کچی پکی قبریں۔ دائیں طرف والی قبرحالیہ بارشوں کی وجہ سے بیٹھ گئی تھی ۔ گہرا گڑھا بن گیا تھا۔ جھانک کر گڑھے کے اندر دیکھا۔ کچھ نہیں تھا ! وہ کہاں گیا۔؟”

کون۔۔۔؟

جس کو اس قبر میں اتارا گیا تھا۔

 خا کی لباس تھا جو خاک میں خاک ہو گیا اور اندر وجوداصل کی طرف لوٹ گیا۔“

موت کیا ہے ۔ ؟ سوال اس کے سامنے تھا۔ کیا اجزا کا بکھرنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا موت ہے اور یہ انسان کیا ہے؟” انسان وحدت میں علم ہے ، سوچ اور کثرت میں نگاہ ہے۔ علم کو فنا نہیں ۔ کثرت رنگ بدلتی ہے اور بدلتے ہوئے رنگوں کے ساتھ سفر جاری رہتا ہے۔” اتنے میں کلمہ شہادت کی آواز آئی۔ میت کو لحد میں اتا را جار ہا تھا۔

 قبر کیا ہے؟” قبر گڑھا ہے جہاں مٹی کومٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔

اور جس کو قبر نصیب نہ ہو ؟ ” دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں برگد کے سائے میں بیٹھ کر سوچا کہ بیج بھی قبر ہے جہاں سے نئی زندگی کی راہیں کھلتی ہیں۔ بیج میں تناور درخت پہلے سے موجود ہے۔ بیج کو زمین کی کوکھ میں دبایا جاتا ہے تو اندر میں سے زندگی ظاہر ہوتی ہے۔ بیج فتا ہوتا ہے اور فنائیت بقا ہے۔

ابدال حق قلندر بابا اولیا فرماتے ہیں کہ تغیر حرکت کا دوسرا نام ہے۔ کسی شے میں جب تک حدود کا تعین نہ ہو حرکت واقع نہیں ہوتی ۔“

اسپیس یا حد بندی میں واقع ہر شے میں تغیر ہے اور تغیر محدودیت کا دوسرا نام ہے۔ آدمی لباس کے خول میں بند زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا وجود بھی ایک قبر ہے جس میں وہ عالم ناسوت کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ اس قبر نے ہر شے کو جکڑ بندیوں میں رکھا ہے۔ میر تقی میر نے سورج کے طلوع و غروب کا منظر دیکھ کر خوب کہا ہے،

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

قرآن کریم میں ارشاد ہے، اے گروہ جن و انس ! اگر تم زمین اور آسمانوں کے . کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل کر دکھاؤ تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے ۔“ (الرحمن: ۳۳) ” اسپیس ہر لمحہ تغیر ہے۔ حضرت آدمی نےکو اس حد اپنا لیا ہے کہ اب وہ کو ملکیت اور گھر سمجھتا ہے۔ شاید معلوم نہیں کہ اس کو ابھی طویل سفر طے کرتا ہے۔ جاننے کے لئے کہ دیوار کے اس پار کیا ہے اور کون کون سی دنیا ئیں آباد ہیں۔ یقیناً انسان خسارہ میں ہے جس نے عجلت میں صبر نہ کیا اور نقصان اٹھایا۔ محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ تالاب میں فوارہ ہے۔ فوارہ ابلتا ہے تو پانی تالاب میں گرتا ہے۔ پانی گرنے سے تالاب میں بے شمار دائرے بنتے ہیں، یہ بے شمار دائرے تارے ستارے اور کہکشانی نظام ہیں جو ہر آن حاضر غیب کا نظارہ ہیں۔ دائرے اپنی بساط میں رہتے ہوئے سفر کرنے کے بعد فنا ہو جاتے ہیں۔ دائروں کا فنا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دائرے اور بنیں گے۔ کہیں دائرہ چھوٹا اور کہیں بڑا۔ اس حساب سے ہر دائرہ کائنات کا نظام ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ کائنات فتا ہورہی ہے اور تعمیر ہورہی ہے۔ جیسے جیسے دائرے فتا ہوتے ہیں اس طرح دائرے بنتے ہیں۔ دائروں کا بنتا اور غائب ہونا اس پانی کی وجہ سے ہے جو پانی فوارہ سے اہل رہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ہر شے اپنی اصل کی طرف محو سفر ہے۔

بیج ( غیب) سے نکلنے والا تنا ور درخت محدود مدت کے لئے یہاں پڑاؤ کرتا یا ظاہر ہوتا ہے، پھل پھول دیتا ہے ، بہار میں دکھاتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ ، یہ سفر مسلسل جاری ہے۔

ماسٹر عبدالحئ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے قبرستان سے باہر کی طرف بڑھنے لگے۔ وقت جیسے رک گیا تھا۔ صرف ٹک ٹک کی تکرار تھی۔

 قبر۔۔۔۔ گور اور مکان

 غیب ۔۔۔۔ ظاہر اور غیب

آنا ۔۔۔۔۔ پڑاؤ اور جانا

 یہ کیسا سفر ہے جو مکمل نہیں ہوتا۔ منزل پر پہنچنے کی لگن ہے مگر منزل کہاں ہے ۔ گائیک تمام عمر اس نغمہ کی تلاش میں گاتا پھرتا ہے جس کو زوال نہیں مگر وہ نغمہ کہاں ہے؟ ہزاروں تصویریں بنا کر بھی مصور کی روح بے چین ہے ۔ وہ تصویر کہاں ہے جو اس کی چوکھٹ پر بھی ہے لیکن باہر نہیں آتی ۔ وہ کہانی کہاں ہے جو لکھاری کے فن کی معراج ہے ۔ یہ سفر کب تک جاری رہے گا۔ کیا اس منزل کی نشان دہی ہو سکتی ہے؟

سورج ڈوب برہا تھا اور وہ قبرستان کے دروازہ سے میں باہر نکل رہا تھا ۔ ایک آواز کانوں سے ٹکرائی جیسے کوئی اس سے مخاطب ہو ، لوئے لوئے بھر لے کڑئیے بے مدھ بھانڈا بھرنا شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا مفہوم: اے بندہ اگر تو چاہتا ہے کہ اپنے محبوب آن کو محبت کا جام پیش کرے تو پھر جلدی کر، زندگی کی کالو ساعتیں کم رہ گئی ہیں۔ ان کو غنیمت جان من کے والے جام کو محبوب کی محبت کی شراب سے بھر لے ۔ اگر زندگی کالونی قبرستان کا سورج ڈوب گیا اور موت کے اندھیرے چھا گئے کیا تھا۔ پھر کچھ نہیں بچے گا۔ اور تو محبوب کے پاس خالی ہاتھ جاتے ہوئے شرمندہ ہو گا ۔” چکرانے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتا کسی نے ہاتھ تھام لیا۔ ان کا ہمسایہ ادھر سے گزر رہا تھا۔ اس نے دیکھ لیا ورنہ وہ گر جاتے ۔ نے کی ماسٹر صاحب آپ کدھر؟ ہمسایہ نے انہیں اپنی موٹر مہ کی سائیکل پر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔ وہ اپنے لطیف صاحب ہیں نا۔ فوت ہوگئے ہیں انہیں دفنا کر آ رہا ہوں۔ ہمسایہ بولا، اللہ تعالی ان کی آنے والی منزلیں آسان کرے۔ ماسٹر عبدالحئی نے سوچا، کیا یہ منزل نہیں؟

گھر آ کر وہ بستر پر لیٹ گئے اور آنکھیں موند لیں۔ اندر گھڑی کی ٹک ٹک جاری تھی۔ اتنے میں بیٹی کمرے میں داخل ہوئی۔ بابا جان! اٹھ جائیں چائے پی لیں۔ بھائی بھی دفتر سے آگئے ہیں ۔ کھانا تیار ہے۔ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ آپ لوگ کھالیں۔ تھکن ہے آرام کرنا چاہتا ہوں۔

 دراصل ماسٹر صاحب کے دل میں کھٹکا لگا ہوا تھا۔ آج کل گھر میں موجودہ مکان خالی کر کے دوسری کالونی میں منتقل ہونے پر بحث چل رہی تھی ۔ سب گھر والے چاہتے تھے کہ موجودہ مکان کو خالی کر کے دوسری کالونی میں اچھا مکان بنایا جائے۔۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

Loading