سفر جاری ہے
تحریر۔۔۔ ملک محمد ناصر(قسط نمبر2)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سفر جاری ہے(قسط نمبر2)۔۔۔ تحریر۔۔۔ ملک محمد ناصر) مگر ماسٹر صاحب راضی نہیں تھے۔
بابا جان ! دیکھیں آدمی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ ہمیں آنے والے وقت کے بارے میں سوچنا ہے۔ یہ بجا ہے کہ اس مکان میں رہائش کی تمام ضرورتیں ہیں مگر تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماسٹر عبد الحئی کے ذہن میں بیٹی کی آواز کے معنی بدلنے لگے۔ اگر تغیر رک گیا تو کائنات رک جائے گی ۔ کن کی آواز پر ہر شے حرکت میں ہے۔ نئی دنیا ئیں تلاش کرنے کے لئے ہمیں ہجرت کرنا ہوگی ۔ نئی نئی دنیاؤں کی اساس حرکت میں ہے۔ اندر کی آواز کو دباتے ہوئے بولے ، میں نے اس عمارت کو اپنے خون پسینہ سے بنایا ہے۔ اس میں اینٹ لکڑی کا کام بے مثال ہے۔ یہ مکان بولتی تصویر ہے۔ اس کے ذرہ ذرہ میں میں آباد ہوں۔ آپ لوگ مجھے کیوں گھر بدر کرنا چاہتے ہیں۔ میرا اور اس مکان کا جنم جنم کا ساتھ ہے۔
بابا جان! آپ کو وہاں ایسا ماحول ملے گا کہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ ہر نیا ماحول پرانے ماحول پر پردہ ڈال دیتا ہے اور آپ کیوں بھول رہے ہیں کہ جو مکان اینٹ پتھر گارے سے بنا ہے وہ طبعی عمر پوری کرنے کے بعد گر جاتا ہے۔ گھر تو لوگوں سے آباد ہوتا ہے۔ آپ اٹھیں، ہم آپ کو آپ کے خوابوں کی تعبیر دکھاتے ہیں۔ وہاں جا کر آپ یہی کہیں گے کہ یہ گھر میں نہیں چھوڑوں گا۔ اس بات پر سب ہنس دیئے ۔
وہ ایک دم چلا اٹھے ۔ اس مکان کی رجسٹری میرے نام ہے۔ دیکھتا ہوں اس کو مجھ سے کون چھینتا ہے۔ دیکھیں یہ مکان آپ کا ہے اور وہ گھر بھی آپ کا ہوگا۔ بات صرف منتقلی کی ہے۔ آپ نے معمولی بات کو سوہان روح بنالیا ہے۔ سب لوگ اٹھے اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
ماسٹر عبدالحئی کا تعلق تدریس سے تھا۔ آج کل محمدی ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ انتہائی کم گو تھے۔ بیش تر وقت مطالعہ میں گزرتا تھا۔ چوں کہ سائنس ٹیچر کا انجام تھے اس لئے ہر شے عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے تھے ۔ نے کہا ان کی سوچ کا بہاؤ باطن سے ظاہر کی طرف ہوتا تھا زمان جب کہ کائنات کے اسرار کو جاننے کے لئے ظاہر سے باطن کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے۔ باطن اصل ہے جس میں تغیر نہیں ۔ ظاہر تغیر پذیر اور الوژن ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن اصل غیب ہے۔ ہر شے غیب سے آتی ہے۔ اس سفر میں ظاہر پڑاؤ ہے ۔ پڑاؤ کے بعد بھی غیب ہے یوں تکرار جاری ہے ۔ سب غیب ہے پھر ظاہر کیا ہے؟
ماسٹر عبدالحئی رات بھر دوسری کالونی میں منتقلی کے بارے میں سوچتے رہے۔ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ اندر کوئی بول رہا ہے۔
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا
آخر یہاں سے کوچ کیوں کیا جائے۔ سب راضی خوشی رہ رہے ہیں ۔ اس کو چ میں ہجرت پنہاں ہے۔
اچانک منظر بدلا۔اس کالونی کے لوگ یہاں سے کوچ کر رہے تھے ۔ خوب صورت مکانوں کو کیوں خالی کیا جارہا ہے۔ وہ یہاں دوبارہ کیوں آباد نہیں ہوتے؟ اندر میں سرگوشی ہوئی ، پرندے جب ہجرت کرتے ہیں تو پرانے گھونسلے خالی کر لیتے ہیں تا کہ نئے پرندے یہاں قیام کریں۔ وہ دوبارہ ان گھونسلوں کو آباد نہیں کرتے بلکہ اپنے لئے نئی جگہ نئے گھونسلے بناتے ہیں۔ تم کون ہو؟ ماسٹر صاحب نے پوچھا۔
تم بھول رہے ہو کہ میں تمہارا ساتھی ہوں ۔ میں نے جب تمہارا لباس پہنا یعنی اس گھر کو اپنے لئے منتخب کیا تو تمہیں گھر کی تزئین و آرائش کے لئے مقرر کیا تھا۔ اب تم کہہ رہے ہو یہ مکان میرا ہے تم اسے خالی نہیں کرنا چاہتے ۔ دراصل تم محدودیت کی پیداوار ہو اور محدودیت میں رہتے ہوئے تمہیں اس مکان سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے تمہیں پہلے بتایا تھا اس مکان کے مالکانہ حقوق تمہارے پاس نہیں ہیں ۔ اب اسے خالی کرنا ہوگالیکن میں کہاں جاؤں گا؟ میں نے پوچھا۔آواز نے کہا، کیوں گھبراتے ہو ،نئی کالونی میں منتقل کیا جائے گا۔
مگر میں اس کالونی کے قوانین اور طرز حیات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ یہ سن کر آواز نے کہا،
شب چاند بھی ڈوب چلا
زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو
سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
تم سمجھتے ہو یہ مکان خالی کر دیا گیا تو تم گھر بدر ہو جاؤ گے۔ یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے۔ خالق کی ذات کے سوا یہاں کسی کو دوام نہیں ۔ ہم ہر لمحہ تبدیل ہور ہے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال کر رہے ہیں۔ سفر تو جاری ہے، ابھی گاڑی غیب سے ظاہر ہو گی۔ کچھ مسافر یہاں اتریں گے اگلے اسٹیشن کی سواریاں چڑھیں گی ۔ اور وہ گاڑی یہاں سے غیب ہو جائے گی۔ تم اپنا سفر جاری رکھو۔ قدرت کی کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرو ۔ یا بدیع العجائب بالخیر یا بدیع !
صبح ماسٹر صاحب کی بیٹی انہیں جگانے کمرے میں آئی۔ آگے بڑھ کر چھوا پھر حواس باختہ ہو کر جھنجھوڑا ۔ گھبرائی ہوئی آواز بلند ہوئی،
اماں! بابا جان نے اپنا مکان خالی کر دیا !
بھیا! یہ مکان خالی ہو گیا !
باہر شور بپا تھا۔ اور اندر گہر ا سکوت تھا۔
زندگی کی گاڑی غیب سے ظاہر ہوئی تھی ، کچھ دیر پڑاؤ کیا اور پھر جانے کے لئے غیب ہو گئی۔ اسٹیشن بدل گیا لیکن سفر جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019