ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) آخر ایتھنز کے اہل اقتدار کو اس سے تکلیف ہی کیا تھی.؟ سقراط کوئی لیڈر نہ تھا جنگجو نہ تھا اسکا سیاسی اثر و رسوخ اتنا نہ تھا کہ وہ اہل اقتدار کیلئے خطرہ بن سکے.
سقراط کے زہر کا پیالہ صدیوں پرانی تاریخ ہے. کچھ سوال البتہ آج بھی حیران کر دیتے ہیں. مثلاً شمالی کوریا کی جیل میں تین نسلیں قید ہوتی ہیں. ستر سال کا دادا اور ایک سال کا پوتا ایک ہی جیل میں بمعہ سارا ٹبر ہوں گے. اس دادے پوتے یا دادی پوتی کا کوئی جرم بھی نہیں ہوگا. پھر یہ جیل میں کیوں ہوتے ہیں؟
سقراط کا جرم ایک ہی تھا. اس نے اپنے طلباء کو سوال کرنا سکھا دیا تھا. سوال کو اس دور میں بھی اور آج بھی اہل اقتدار سوال نہیں سمجھتے بلکہ اپنی اہلیت پر شک سمجھتے ہیں. ایتھنز کے استاد بھی سقراط کے خلاف تھے کیونکہ وہ پہلے جو کچھ پڑھاتے طلباء اسے قبول کرتے لیکن اب طلباء نے سوال کرنا شروع کر دیا. اہل اقتدار پر
مکمل نیوز کے لئے www.dailyroshninews.com وزٹ کریں۔
سوال ہوا طبقہ امراء پر سوال ہوا. تم اگر آسائش میں ہو تو حلقت آخر کیوں پریشان ہے.؟
ان سوالات کے جواب نہ تھے. اس لئے سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا. شمالی کوریا میں ایک شخص بادشاہ پر سوال اٹھا دے تو اسے ہی نہیں اس کے بیوی بچوں والدین سب کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے. اہل اقتدار کل بھی سوالات سے پریشان ہوتے تھے آج بھی پریشان ہوتے ہیں. بس کچھ معاشرے اب ترقی کر گئے ہیں وہ کہتے ہیں اچھا اسے اقتدار دے دو جو تمہارے جواب دے سکے اور کچھ معاشرے شمالی کوریا کی طرح ہوتے ہیں وہ نسلوں کو قید کر کے سمجھتے ہیں شائد اب ان پر سوال اٹھنا بند ہو جائیں گے.
سوال لیکن اٹھتے رہیں گے. کیونکہ اہل اقتدار سوال کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور شک کسی کو بھی نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے. مثلاً شمالی کوریا میں بادشاہ یا بادشاہ کے ابا کو دعا میں اپنے والدین سے پیچھے یاد کرنا بھی جرم ہے.