سلسلہ عظیمیہ کا پیغام تعلیمات اور تربیتی نظام
تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پیشکش ۔۔۔انجنیئر سہیل احمد عظیمی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ کا پیغام تعلیمات اور تربیتی نظام۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34 میں
فرماتے ہیں:
ترجمہ: “عہد کی پابندی کروکیونکہ عہد کے بارے میں تم سے سوال ہو گا۔ “
معلم اخلاق حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کے مطابق عبد کی پاس داری آدمی کے دین دار ہونے کی نشانی ہے۔۔ مسند احمد میں اللہ کے رسول کی یہ حدیث بیان ہوئی ہے: ترجمہ : اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو“۔
روحانی علوم کے طالب علم ، بالخصوص سلسلہ عظیمیہ کے اراکین کے لئے ایفائے عہد یا وعدے کی پاس داری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ عہد کی پاس داری نہ کرنا طالب علم کی روحانی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ روحانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بُرے اخلاق، وعدہ خلافی اور معاملات میں خرابی انسان میں روشنیوں کے ضائع ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ قلندر بابا اولیاء کی تصنیف لوح و قلم صفحہ 148 کی روشنی میں روحانی علوم کے طالب علموں کو سمجھنا چاہئے کہ انسان میں روشنیوں کی ایک معین مقدار ہوتی ہے جو انسانی وجود میں ملکیت اور بشریت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ اچھے اخلاق، ایفائے عہد اور معاملات میں سچائی آدمی میں روشنیوں کے توازن کو بر قرار رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔
وقت کی قدر:
سلسلہ عظیمیہ اپنے وابستگان کو بتاتا ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وقت کی قدر کرنا بہت اہم ہے۔
وقت اللہ کی تخلیقات میں سے ایک بہت اہم تخلیق ہے۔ روحانی علوم کے طالب علم کو تاکید کی جاتی ہے کہ وقت کی بہت زیادہ قدر کی جائے، وقت ضائع نہ کیا جائے۔ وقت ضائع کرنا اللہ کی ایک بڑی نعمت کی ناقدری اور ناشکری ہے۔
راہ سلوک کے طالب علم کو اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار بننا سکھایا جاتا ہے۔ ہمیں وقت کا مثبت اور تعمیری استعمال اللہ کی شکر گزاری کے احساس کے ساتھ سیکھنا چاہیے۔
محبوب اسی بنے کا ایک فارمولا:
کسی انسان کی یہ بہت خوش نصیبی ہے کہ اس کا شمار اللہ کے محبوب افراد میں ہونے لگے۔ اللہ کا محبوب بننے کے فارمولے یا طریقے خود اللہ تعالی نے انسانوں کو بتائے ہیں۔
سوره آل عمران کی آیت 134 میں ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: ” یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی ( دونوں حالتوں میں ) خرچ کرنے والے ہیں اور غصہ کو ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ ایسے احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“۔
اس آیت میں واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ اللہ محسنین سے محبت کرتا ہے۔
محسنین کی صفات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لئے اللہ کی راہ میں مال کھلے اور جھے خرچ کرنا، کسی ناگوار یا مخالفانہ بات پر اشتعال میں آنے کے بجائے اپنے فیض پر قابو پانا اور ایسی باتیں کرنے والوں کے ساتھ حال اور مستقبل میں در گزر کا
رویہ اختیار کرنا احسان میں شامل ہے۔ ان محسنین سے اللہ محبت کرتا ہے۔
کئی قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ جذبات پر کنڑول اچھی معاشرت کے لئے بہت اہم ہے۔ سلسلہ عظیمیہ اپنے اراکین کو اپنے جذبات پر کنڑول کی اور معافی اور درگزر کی ترغیب دیتا ہے۔
اپنے جذبات پر کنٹرول، غصہ، جلد بازی اور فوری رد عمل سے گریز اور معافی و در گزر اختیار کرنا بہت اچھا طرز عمل ہے۔ سیوطہ یہ طرز عمل آدمی کو کئی مسائل سے بھی بچاتا ہے اور اچھی معاشرت کے لئے معاون بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی راہ میں خوش دلی سے انفاق اور معافی و در گزر کرتے رہنے والے بندے اللہ کے محبوب افراد میں شمار ہونے لگتے ہیں۔
والدین کے درجات:
والدین کے درجات کی بلندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک نے قرآن میں والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اللہ تعالی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: آپ کے رب نے حکم فرمادیا ہے کہ تم اللہ کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
سور البقرة کی آیت 83 میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ: “اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔“ نبی رحمت علیہ الصلواۃ والسلام نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور والدین کی فرمان برداری کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔
قرآنی احکامات اور نبی کریم کی تعلیمات کی روشنی میں صوفیائے کرام بتاتے ہیں کہ راہ سلوک کے مسافر کے لئے اپنے والدین کا بہت زیادہ احترام اور بہت ادب سے ان کی خدمت کرتے رہنا لازمی ہے۔ والدین کی خدمت سے لا تعلقی اور ان کی حق تلفی سالک کی روحانی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اولاد کی اچھی تربیت:اولاد والدین کے لئے اللہ تعالی کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کا اچھی طرح شکر ادا کرنا والدین پر فرض ہے۔ ہمارے مرشد حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے تھے کہ شکر صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی ہونا چاہئے۔ اولاد کی نعمت ملنے پر اللہ تعالی کا عملی شکر اولاد کی اچھی تربیت کے ذریعے کیا جائے۔
اولاد کو اچھے اخلاق سکھانے، ان کی شخصیت کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر ، ان کی اچھی کردار سازی کے لئے والدین کو باہمی مشاورت کے ساتھ اہتمام کرنا چاہئے۔ اپنی اولاد کو دنیاوی، دینی، روحانی تعلیم دینے کا مناسب اہتمام کیا جائے۔ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی بتاتے ہیں کہ ان کی دادی اماں امت الرحمن فرمایا کرتی تھیں کہ مسلمان والدین کو اپنی اولاد کی تربیت یہ سوچ کر کرنی چاہئے کہ ہمارے بچے اللہ کے اچھے بندے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اچھے امتی بنیں۔
خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاس داری
سلسلہ عظیمیہ اپنے سب وابستگان کو تاکید کرتا ہے کہ خواتین کا بہت زیادہ احترام کیا جائے۔ ماں ہو ، بہن ہو، بیوی ہو یا بیٹی ہو سب کا احترام کیا جائے۔ کسی عورت سے ان میں سے کوئی رشتہ نہ ہو تب بھی ہر۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2025
![]()

