Daily Roshni News

سندھ طاس معاہدہ اور اس کی معطلی:

سندھ طاس معاہدہ اور اس کی معطلی:

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔

اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔

دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔

اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔

معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا تھا۔

سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان:

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں منگل کو ہونے والے دہشتگردانہ حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پرعملدرآمد کی معطلی کا اعلان کیا ہے۔

انڈیا کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا کیا مطلب ہے؟

سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے. عملدرآمد کی معطلی کا مطلب یہ ہے یہ اجلاس، معائنہ دورے یا دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی ڈیٹا شیئرنگ نہیں ہو گی۔

انھوں نے کہ انڈیا نے اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا اعلان اب کیا ہے مگرعملاً وہ تقریباً چار برسوں سے اس پر عملدرآمد روک چکا ہے۔ان کے مطابق انڈیا گذشہ چار برس سے ویسے بھی واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا۔ جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان کو کیا فرق پڑے گا ؟

شیراز میمن کا کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا شیئرنگ نہ ہونے سے پاکستان کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا ’کیونکہ ہم اپنی طرف دریاؤں پر آلات لگا کر پانی کے بہاؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔

آبی امور کے ماہر ڈاکٹر شعیب  کہتے ہیں کہ صرف کمشنر کے سالانہ اجلاس، دریاؤں میں پانی کے ڈیٹا شیئرنگ اور دونوں انڈس واٹر کمشنرز کے مابین رابطے میں تعطل کے علاوہ اس معطلی کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔

معطلی کا اعلان پاکستان کے لیے کس قسم کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟ اس سوال پر سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا قلیل مدتی لحاظ سے اس کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔تاہم شیراز میمن نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا ان دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو مطلع کیے بغیر تبدیل کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ وہ پاکستان کو بنا بتائے ایسے مزید منصوبے کر سکتا ہے جس کا اثر پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر پڑے۔تاہم شیراز میمن کے مطابق ایسا کرنا انڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جا سکتا ہے۔ڈاکٹر شعیب بھی ایڈیشنل کمشنر انڈس واٹر ٹریٹی کے بیان سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معطلی محض سیاسی بیان بازی ہے اور اس سے پاکستان پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔’انڈیا پاکستان کے پانی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز اور اس کے وسائل موجود ہیں۔‘

کیا انڈیا یکطرفہ طور پر اس معاہدے  کو منسوخ یا معطل کر  سکتا  ہے؟

سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا, بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے بتایا کہ انڈیا کو یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔اُن کے مطابق اس معاہدے میں ایسی کوئی شق ہی نہیں ہے کہ اسے معطل کیا جا سکے۔ تاہم اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک باہمی رضامندی سے اس معاہدے میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سات دہائیوں میں کبھی اس معاہدے کو نہیں چھیڑا گیا

شیراز میمن کا بھی کہنا تھا کہ یکطرفہ طور پر کوئی ملک چاہے وہ پاکستان ہو یا انڈیا اس معاہدے میں کوئی تبدیلی یا اسے معطل نہیں کر سکتا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں کیا گیا اور اس کا ثالث عالمی بینک ہے۔ان کے مطابق یہ معاہدہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضامندی کو پابند کرتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ معاملہ لے جا سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو عالمی بینک کے ساتھ ساتھ اس کی کچھ شقوں کو ویانا کنونشن کے تحت بھی تحفط حاصل ہے اور کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر اس معاہدے پر عملدرآمد کو معطل نہیں کر سکتا۔

اس تحریر میں بی بی سی اردو سے مواد لیا گیا ہے

Loading