Daily Roshni News

سوداگر نے کہا… “میری ایمانداری اور میری خُدداری۔”

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک سوداگر نے بازار میں گھومتے ہوئے ایک عمدہ نسل کا اونٹ دیکھا سوداگر اور اونٹ بیچنے والے کے درمیان کافی دیر تک گفت و شنید ہوئی اور آخرکار سوداگر اونٹ خرید کر گھر لے آیا۔

گھر پہنچ کر سوداگر نے اپنے نوکر کو اونٹ کی زین اتارنے کے لیے بلایا نوکر کو زین کے نیچے ایک مخملی تھیلا ملا جسے کھولنے پر قیمتی ہیروں اور جواہرات سے بھرا ہوا پایا۔

نوکر چلا کر بولا، “آقا آپ نے اونٹ خریدا ہے، لیکن دیکھو مفت میں کیا آیا؟”سوداگر بھی حیران ہوا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ میں ہیرے دیکھے جو چمک رہے تھے اور سورج کی روشنی میں اور بھی زیادہ جھلملا رہے تھے۔

سوداگر نے کہا… “میں نے اونٹ خریدے ہیں، ہیرے نہیں، مجھے انہیں فوراً واپس کر دینا چاہیے۔”

 نوکر دل میں سوچ رہا تھا کہ میرا آقا کتنا بیوقوف ہے…

بولا مالک کسی کو کچھ  پتا نہیں چلے گا ہیرے رکھ لیں لیکن تاجر نے ایک نہ سنی اور وہ فوراً بازار پہنچا اور اونٹ والے کو تلاش کر کے اس کو مخمل کا تھیلا واپس کر دیا۔

اونٹ بیچنے والا بہت خوش ہوا، کہنے لگا میں بھول گیا تھا کہ میں نے اپنے قیمتی پتھروں کو زین کے نیچے چھپا رکھا ہے۔

اب آپ کسی ایک ہیرے کو بطور انعام منتخب کر سکتے ہیں سوداگر نے کہا کہ میں نے اونٹ کی صحیح قیمت ادا کر دی ہے اس لیے مجھے کسی شکریہ اور انعام کی ضرورت نہیں۔

سوداگر نے جتنا انکار کیا، اونٹ بیچنے والے نے اتنا ہی اصرار کیا۔

آخرکار تاجر مسکرایا اور کہا کہ حقیقت میں جب میں نے تھیلی واپس لانے کا فیصلہ کیا تو میں نے پہلے ہی دو قیمتی ہیرے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔

 اس اعتراف کے بعد اونٹ بیچنے والے کو غصہ آگیا، اس نے فوراً ہیرے اور جواہرات گننے کے لیے تھیلا خالی کردیا۔

لیکن اس نے بڑی الجھن میں کہا، “میرے سارے ہیرے یہاں ہیں، تو سب سے قیمتی دو کون سے تھے جو تم نے رکھ لیے؟”

 سوداگر نے کہا… “میری ایمانداری اور میری خُدداری۔”

Loading