ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔سورہ البقرہ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر ۔۔۔ حمیرا علیم ۔۔۔۔۔۔)
: سورہ البقرہ
اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَيْـهِـمْ ءَاَنْذَرْتَـهُـمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُـمْ لَا يُؤْمِنُـوْنَ (6) ↖
بے شک جو لوگ انکار کر چکے ہیں، برابر ہے انہیں تو ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
خَتَمَ اللّـٰهُ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ وَعَلٰى سَمْعِهِـمْ ۖ وَعَلٰٓى اَبْصَارِهِـمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَّلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ (7) ↖
اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اوران کے لیے بڑا عذا ب ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُـمْ بِمُؤْمِنِيْنَ (8) ↖
اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان دار نہیں ہیں۔
يُخَادِعُوْنَ اللّـٰهَ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَهُـمْ وَمَ…
[8:57 PM, 5/1/2025] Javed Sab Bs: سورہ البقرہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمْ اٰمِنُـوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ ۗ اَ لَآ اِنَّـهُـمْ هُـمُ السُّفَهَآءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ (13) ↖
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں، خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے۔
وَاِذَا لَقُوا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيَاطِيْنِـهِـمْ قَالُوْآ اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُوْنَ (14) ↖
اور جب ایمانداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم توتمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف ہنسی کرنے والے ہیں۔
اَللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِـهِـمْ وَيَمُدُّهُـمْ فِىْ طُغ…
[8:57 PM, 5/1/2025] Javed Sab Bs: سورہ البقرہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
يٰٓـاَ يُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (21) ↖
اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔
اَلَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (22) ↖
جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل نکالے، سو کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔
وَاِنْ كُنْتُـمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (23) ↖
اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ، اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو۔
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ اُعِدَّتْ لِلْكَافِـرِيْنَ (24) ↖
بھلا اگر ایسا نہ کر سکو، اور ہرگز نہ کر سکو گے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافرو ں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
وَبَشِّرِ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْـهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّـذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَـهُـمْ فِيْـهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَّهُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (25) ↖
اوران لوگو ں کو خوشخبری دے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جب انہیں وہاں کا کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے ملا تھا، اور انہیں ہم شکل پھل دیئے جائیں گے، اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ عورتیں ہوں گی، اوروہ وہیں ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر
1:چونکہ اللہ تعالٰی ساری کائنات کے خالق ہیں تو دعوت عبادت بھی سب کو ہے۔جب بھی لفاظ الناس استعمال ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سب انسانوں کے لیے ہے۔کیوں عبادت کریں؟ کیونکہ اس نے پیدا کیا پروان چڑھایا ہر چیز مہیا کی۔نہ صرف ہمیں بلکہ ہم سے پہلے لوگوں کو بھی اور سب سے بڑھ کر اس لیے کہ ہم متقی بن جائیں۔
2:مزید نعمتیں گنوائیں۔اس لیے کہ اس نے زمین کو ہمارے رہنے کی جگہ بنایا حالانکہ اس کے اندر لاوا ابل رہا ہے اور یہ مسلسل گھوم رہی ہے، آسمان سے بارش برسائی جس کی وجہ سےپھل اور ہر طرح کا رزق ہمیں ملتا ہے۔بارش کی وجہ سے ہی سب فصلیں، نباتات اگتی ہیں۔جانور انسان دیگر مخلوقات سیراب ہوتی ہیں ۔انسان کپڑے، جوتے، کھانے کی اشیاء بناتا ہے۔زمین میں 4 لاکھ قسم کی نباتات ہیں۔اربوں انسان ہیں کھربوں مخلوقات ہیں کیا یہ سب اللہ کی پہچان کے لیے کافی نہیں؟کہ انسان اسے چھوڑ کر دوسرے رب بناتا ہے جن سے مدد مانگتا ہے۔
کسی بدو سے اللہ کی پہچان پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا:” اونٹ کی پہچان اس کے نقش پا اور مینگنی دیکھ کر ہو جاتی ہے تو کیا انسان اس آسمان اور سمندر کو دیکھ کر اللہ کو پہچان نہیں سکتا۔” امام ابو حنیفہ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:” ایک بہت بڑا مال بردارجہاز بنا کسی محافظ یا چلانے والے کےچلتا ہوا وقت پر منزل پر پہنچ جاتا ہے۔” سائل نے کہا :” یہ کیسے ممکن ہے۔” امام نے کہا:” افسوس تمہاری عقلوں پر کہ ایک جہاز تو بغیر چلانے والے کے نہیں چل سکتا مگر کائنات چل رہی ہے۔” اس پر سب مسلمان ہو گئے۔
امام شافعی نے جواب دیا:” شہتوت کے پتے کا ایک ہی ذائقہ ہے اسے کھا کرکیڑا ریشم، مکھی شہد، جانور دودھ اور ہرن مشک بناتے ہیں۔ایسے خواص ایک پتے میں کس نے پیدا کیے؟”
امام حنبل نے انڈے میں بچے کی پیدائش کو دلیل بنایا۔اللہ تعالٰی نے بنیادی چیزوں سے اپنی پہچان کروائی ہے۔لوگ جانتے ہیں صرف اللہ ہی خالق و مالک ہے مگر مانتے نہیں اسی لیے غیر اللہ کو مانتے ہیں۔جس شخص، چیز یا مقام پر دعا کی جائے، زیارت کی جائے، مانگا جائے یہ سمجھ کر کہ وہ دعا ، خواہش پوری کر سکتا ہے غیر اللہ ہی ہے۔
2: اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔عبادت اس لیے نہیں کی جاتی کہ اللہ کا حکم ہے بلکہ اپنی بچت کے لیے کی جاتی ہے۔کیونکہ دنیاوی و اخروی زندگیوں میں ہر چیز اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اس لیے عبادت و دعا بھی اسی کے لیے جائز ہے۔ڈاکٹر سے دوا ایک سبب ہے شفا اللہ ہی دیتا ہے۔سیڑھی چھت پر چڑھنے کا سبب ہے اللہ نہ چاہے تو یہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔اسباب دنیا اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر ان پر تکیہ کرنا انہیں شفا، رزق، دیگر فوائد یا نفع نقصان کا مالک ماننا درست نہیں۔
3: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔کہ قرآن ان پر اللہ نے نازل فرمایا ہے انہوں نے نہیں لکھا۔اگر کسی کو شک ہے تو جا کر اس کی ایک سورت جیسی کوئی سورت ہی بنا لائے۔قرآن میں متعددبار یہ چیلنج اللہ تعالٰی نے بندوں کو دیا ہے کہ تمام جن وانسان مل کر بھی اس کی ایک سورت جیسی سورت یا اس کی مخلوق جیسی مخلوق حتی کہ معمولی مکھی تک بنانے پر قادر نہیں۔مسیلمہ نے اس چیلنج کے جواب میں ایک نظم کہی جسے عربوں نے جھوٹ کہا۔ ہر نبی کو ان کے وقت میں موجود رسوم و رواج کے مطابق معجزے ملے موسی علیہ السلام کے دور میں جادو عروج پر تھا لہذا انہیں عصا سے اژدھا بنانے کا، عیسی علیہ السلام کے دور میں طب عروج پر تھی انہیں مریض تندرست کرنے کا معجزہ ملا۔عرب زبان کے ماہر تھے اپنے اونٹوں کے شجرہ نسب بھی یاد رکھتے تھے۔برتنوں چیزوں کے بھی نام رکھتے تھے لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربی زبان میں قرآن کا معجزہ عطا کیا گیا۔عمر بن لبید عرب کا عظیم شاعر تھا جس کی نظمیں کعبہ میں لٹکی رہتی تھیں جب سورہ کوثر سنی تو اپنا کلام ہٹا لیا کہ آج کے بعد میں شاعری نہیں کروں گا یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔ابو جہل نے قرآن سنا توکہا ہم نے ہمیشہ بنو عبد مناف کے خاندان کا مقابلہ کیا ہے اس لیے ہم ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ہم چونکہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھتے تو ہم پر اس کا اثر بھی نہیں ہوتا۔جب کوئی ترجمہ تفسیر بتائے تو ضد انا کی وجہ سے یہ مت کہا کریں کہ تم۔نے خود سے یہ گھڑ لیا ہے۔بلکہ اللہ کا کلام سمجھ کر خود اپنا قرآن کھول کر پڑھیں اور مان جائیں۔ نہ ماننا ابلیس اور ک ف ا ر کا عمل ہے۔
5: جب انسان اللہ کی بنائی مخلوق نہیں بنا سکتا ایک سورت نہیں بنا سکتا تو پھر اسے غرور کس بات کا ہے۔اسے چاہیے عاجزی اختیار کرےاور اپنے رب کی اطاعت کر کے جہنم کی آگ سے بچے۔قرآن میں اللہ تعالی انسانوں کو جہنم کا ایندھن فرماتے ہیں۔کیونکہ انسانی جسم بھی ایسے مادوں سے بنا ہے جو آتش گیر ہیں مثلا کیشیم، فاسفورس، چونا۔حجارہ سیاہ گندھک جو آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے زمین پر ہیں۔ جن سے آگ مزید بھڑکائی جائے گی۔
6: قرآن کا اسلوب ہے کہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دے کر جہاں عذاب، سزا اور جہنم کی بات آتی ہے وہیں حکم ماننے والوں کے لیے جنت انعام کی بشارت بھی آتی ہے۔پہلے بتایا کہ جو اللہ کی بات پر عمل نہیں کرتا اسے نہیں مانتا اس کے لیے جہنم کا دردناک عذاب ہے اب فرمایا۔جو ایمان لا کر عمل کریں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عمل کریں ان کے لیے وہ جنت ہے جس میں گڑھا نہیں مگر دودھ، مشک، شہد کی نہریں، دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے پھل، نیچے سے اوپر کو بہتی آبشاریں،اور حوریں ہوں گی۔دنیاوی چیزوں سے مشابہت اتنی ہی ہو گی کہ شکل ملتی ہو گی۔تاکہ انسان مانوس رہے جب کہ سائز اور ذائقہ بے مثال ہو گا۔احادیث سے ان سبکی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔یہ چیزیں انسان کےلی سوچ کے ساتھ ہی اس کے سامنے حاضر ہو جائیں گی اور جب تک وہ چاہے گا ان سے لطف اندوز ہوتا رہے گا۔
عمل: اپنے ایمان کو دل میں پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی دکھانا ہے۔توکل ایسا پیدا کرنا ہے جیسے انبیاء اور پرندوں میں ہے۔سوائے اللہ کے کسی سے نہ کچھ مانگنا ہے نہ ہی کسی کی عبادت کرنی ہے۔اپنے آپ کواور دوسروں کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے۔جب بھی کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو قرآن و حدیث سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی ہے۔ قرآن کو ترجمے تفسیر کے ساتھ پڑھنا ہے۔مختلف تراجم و تفاسیر پڑھنی ہیں۔پھر کتب احادیث بھی ترجمے شرح کے ساتھ پڑھنا ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی طریقے سے دوسروں کو بھی بتانا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا