سونے کا گھڑا اور ٹوٹا ہوا لوٹا
ایک دور کی بات ہے، ایک امیر شہر “نورپور” کے مضافات میں حشیم نامی ایک شخص رہتا تھا۔ اس کے پاس دولت کے انبار تھے۔ باغات تھے، کھیت تھے، مویشی تھے، اور ایک بہت بڑا گھر تھا جس میں سونے چاندی کے برتن جگمگاتے تھے۔ مگر حشیم کی دولت اس کی آنکھوں میں چمک نہیں لا سکتی تھی۔ اس کا دل ایک تاریک کنویں کی طرح تھا – ہمیشہ خالی، ہمیشہ مزید چاہنے والا۔ وہ اپنے مزدوروں پر سختی کرتا، غریبوں کو دیکھ کر منہ موڑ لیتا، اور ایک پیسے کو بھی ایسے خرچ کرتا جیسے وہ اس کا جگر ٹکڑا ہو۔ اس کی دولت اس کے دل میں بخل کی دیواریں کھڑی کر چکی تھیں۔ایک سخت گرمی کا موسم تھا۔*lدھوپ آگ برسا رہی تھی، زمین پھٹ رہی تھی، اور دریا کا پانی بھی کم ہو چکا تھا۔ حشیم اپنے باغ میں بیٹھا تھا جہاں اس نے مزدوروں سے کہا تھا کہ وہ درختوں کو بہت کم پانی دیں، “پانی ضائع مت کرو! وہ چلا رہا تھا۔ اسی دوران، اس کی نظر ایک دور سے آنے والی ایک سادہ سی شخصیت پر پڑی۔ وہ ایک بزرگ درویش تھے، جنہیں لوگ بابا فرید کے نام سے جانتے تھے۔ بابا فرید کا چہرہ سکون سے دمک رہا تھا، جسم پر ایک پرانی چادر تھی، اور ہاتھ میں ایک خشک لوٹا (کدو کا بنا ہوا برتن) تھا۔بابا فرید حشیم کے دروازے پر پہنچے اور پیاس بجھانے کو پانی مانگا۔ حشیم نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “اے درویش! پانی کا قحط ہے۔ میرے اپنے باغ کے لیے پانی کم پڑ رہا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہاری طرح ہر گزرنے والے کو پانی دے دوں؟ جاؤ، کہیں اور دیکھو۔” بابا فرید نے کوئی جھنجھلاہٹ ظاہر نہ کی۔ ان کی آنکھوں میں ایک گہرا دکھ تھا، لیکن غصہ نہیں۔ انہوں نے صرف سر ہلایا اور دروازے سے ہٹ کر ایک کھجور کے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد، حشیم کا ایک وفادار، مگر بہت غریب مزدور، جس کا نام رحیم تھا، وہاں سے گزرا۔ اس نے بابا فرید کو دیکھا جن کے ہونٹ سوکھے ہوئے تھے۔ رحیم کے پاس خود بھی کچھ نہ تھا، مگر اس کا دل دریا کی ماند تھا۔ وہ فوراً اپنی چھوٹی سی مشک(پانی کا چھوٹا برتن) لے آیا جو اس نے مشکل سے بھری تھی، اور ادب سے بابا فرید کے سامنے رکھ دی۔ “بابا جی، معاف کیجیے گا، بس یہ تھوڑا سا پانی ہے۔ پی لیجیے،” رحیم نے کہا۔بابا فرید نے مسکراتے ہوئے پانی پیا، اور رحیم کی مہربانی سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنا خشک لوٹا اٹھایا، اس پر ایک نظر ڈالی، اور پھر رحیم کی طرف بڑھا دیا۔ “بیٹا، تمہارے دل میں دردمندی ہے۔ یہ لوٹا تمہارے پاس رہے۔ جب بھی پیاس لگے، اس میں پانی مانگنا۔ خدا تمہیں کبھی پیاسا نہ رکھے گا۔” رحیم نے حیرت اور احترام سے لوٹا لے لیا، اگرچہ وہ اس کے معمولی ہونے پر حیران تھا۔ بابا فرید برکت کی دعا دیتے ہوئے چلے گئے۔رحیم گھر گیا۔ اس شام جب اس کے بچوں نے پانی مانگا تو اسے بابا فرید کی بات یاد آئی۔ اس نے سوچا آزماتے ہیں۔ اس نے خالی لوٹے پر نظر ڈالی اور بولا، “اگر خدا نے چاہا تو اس لوٹے میں پانی آ جائے۔” حیرت انگیز طور پر، لوٹا فوراً صاف، ٹھنڈے پانی سے بھر گیا! رحیم اور اس کا خاندان خوشی سے جھوم اٹھا۔ انہوں نے خوب سیر ہو کر پیا۔ پھر رحیم نے سوچا، “اگر یہ پانی میرے لیے ہے تو شاید دوسرے پیاسوں کے لیے بھی ہو۔” اس نے پڑوس کے غریب خاندانوں کو پانی پلانا شروع کیا۔ حیرت کی بات یہ کہ جتنا پانی وہ نکالتا، لوٹا دوبارہ بھر جاتا۔ یہ ایک چشمہ بن گیا تھا۔خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ حشیم نے بھی اس معجزے کے بارے میں سنا۔ اس کا لالچی دل تڑپ اٹھا۔ وہ فوراً رحیم کے جھونپڑے پر پہنچا۔ “اوے رحیم! یہ کیا سنا ہے؟ وہ درویش کا لوٹا؟ دکھاؤ مجھے!” حشیم نے حکم دیا۔ رحیم نے بے چارگی سے لوٹا دکھایا۔ حشیم نے اسے ہاتھ میں لیا، اس کی سادگی اور بے قدری پر ناک بھوں چڑھائی، مگر پھر اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس کے ذہن میں ایک منصوبہ کوند گیا۔یہ لوٹا تمہارے لیے نہیں، رحیم! حشیم نے گرج کر کہا۔ “بابا فرید پہلے میرے دروازے پر آئے تھے۔ اگر میں نے انہیں پانی دیا ہوتا تو یہ لوٹا میرا ہوتا! یہ میرا حق ہے! مجھے دے دو!” رحیم نے بہت منت سماجت کی کہ یہ اس کے بچوں کی پیاس بجھاتا ہے، غریبوں کی خدمت کرتا ہے، مگر حشیم کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس نے زبردستی لوٹا چھین لیا اور اپنے گھر لے آیا۔حشیم اپنے خزانے کے کمرے میں گیا، جہاں سونے چاندی کے برتن چمک رہے تھے۔ اس نے سوچا، “ایسے معمولی لوٹے میں اتنی طاقت؟ نہیں! یہ پانی تو سونے کے قابل ہے!” اس نے لوٹے کو ایک بڑے سونے کے طشتری پر رکھا اور زور سے بولا، “اے لوٹے! پانی نہیں، سونا اگل! سونے کے سکے بھر دے اس طشتری کو!” اس کی آنکھیں لالچ سے چمک رہی تھیں، دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔لوٹے نے ایک عجیب سی کھنکھناہٹ کی۔ پھر، اچانک، اس میں سے پانی کی بجائے، چمکدار، گاڑھا، کھولتا ہوا سونا نکلنا شروع ہوا! حشیم خوشی سے چلایا، “ہاں! ہاں! اور! مزید سونا دو!” سونا تیزی سے بہہ کر طشتری کو بھرنے لگا، پھر طشتری سے لبریز ہو کر فرش پر پھیلنے لگا۔ حشیم کا لالچ بڑھتا گیا، “اور! اور! پورا کمرہ بھر دو سونے سے!” سونے کی لہر تیزی سے بڑھنے لگی، کمرے کی چیزوں کو ڈھانپنے لگی۔مگر سونا بہت گرم تھا، بہت وزنی تھا۔ لوٹا، جو پانی کی برکت کے لیے بنا تھا، سونے کے دباؤ اور گرمی کو برداشت نہ کر سکا۔ ایک زوردار دھماکے کے ساتھ، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا! سونے کا بہاؤ رک گیا۔ اب حشیم کے سامنے ٹوٹا ہوا لوٹا پڑا تھا اور کمرہ ٹھنڈے، بے جان سونے سے بھرا ہوا تھا۔ وہ سونا جسے وہ چاہتا تھا، اب اسے گھیرے ہوئے تھا، مگر وہ اسے چھو نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ ابھی تک انتہائی گرم تھا۔ وہ پھنس گیا تھا – اپنے ہی لالچ کے سونے کے جال میں۔اگلے دن بابا فرید واپس آئے۔ انہوں نے حشیم کو سونے کے ٹیلے میں پھنسا ہوا دیکھا، جو ٹوٹے ہوئے لوٹے کو حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ بابا فرید نے کوئی طعنہ نہ دیا، صرف افسوس سے سر ہلایا۔ انہوں نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پانی میں بھگو کر حشیم کے جلے ہوئے ہاتھ پر رکھا، اور اسے سونے کے جال سے آہستہ سے نکالا۔حشیم کی آنکھیں شرم اور پچھتاوے سے بھر آئیں۔ وہ بابا فرید کے قدموں پر گر پڑا۔ “بابا جی! میں گناہ گار ہوں! میں اندھا تھا لالچ میں۔ میں نے رحیم کا حق مارا، آپ کی بات نہ مانی، اور یہ سب کچھ کھو دیا۔” اس نے ٹوٹے ہوئے لوٹے کی طرف اشارہ کیا۔بابا فرید نے نرمی سے اس کا سر اٹھایا۔”بیٹا حشیم، یہ لوٹا نہیں ٹوٹا۔ یہ تمہارے دل کی سختی ٹوٹی ہے۔ تمہارا لالچ اس کی برکت کو سہار نہ سکا۔ اس نے پانی دیا، جو سب کی پیاس بجھاتا ہے، زندگی دیتا ہے۔ تم نے اس سے سونا مانگا، جو صرف خواہش اور بندش پیدا کرتا ہے۔ یاد رکھو، اصل دولت وہ نہیں جو چمکتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دلوں کو روشن کرتی ہے۔”حشیم نے گہرا سبق سیکھا۔اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ غریبوں میں بانٹ دیا، رحیم اور دوسرے مزدوروں کو انصاف دیا، اور شہر کے کنویں کھدوائے تاکہ قحط میں بھی کوئی پیاسا نہ رہے۔ وہ خود سادگی سے رہنے لگا۔ کہتے ہیں کہ اس کا چہرہ، جو پہلے لالچ کی وجہ سے مسخروں جیسا لگتا تھا، اب سکون اور سخاوت کی روشنی سے دمکنے لگا۔ اور رحیم کا خاندان؟ بابا فرید کی دعا سے وہ ہمیشہ خوشحال رہا، کیونکہ ان کا دل پانی کی طرح صاف اور دریا کی طرح فراخ رہا۔ ٹوٹا ہوا لوٹا، حشیم کے گھر میں ایک یادگار کے طور پر رکھا گیا، ہمیشہ اسے یاد دلاتا رہا کہ:”لالچ کی دیواریں انسان کو قید کر لیتی ہیں، جبکہ سخاوت کے دروازے جنت کھول دیتے ہیں۔ سادگی اور شکرگزاری میں ہی حقیقی سکون اور لامحدود برکت پوشیدہ ہے