سویا بین: غذا بھی دوا بھی
تحریر ۔۔۔ حکیم نیاز احمد ڈیال
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سویا بین: غذا بھی دوا بھی۔۔۔ تحریر ۔۔۔ حکیم نیاز احمد ڈیال)سویا بین ایک قدیم ترین پودا ہے جو بطور غذا ا ور دوا استعمال ہوتا ہے۔ سویا بین کے پودے 150 سینٹی میٹر اونچے ہوتے ہیں، تنے باریک روئیں دار اورآپس میں الجھے ہوئے لیسدار ہوتے ہیں۔ سویابین کو غذا و دوا کے علاوہ دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ اس سے پینٹ، وارنش، Linoleum، کاغذ اور بہت سے واٹر پروف سامان وغیرہ بھی بنتے ہیں۔
سویا بین کا استعمال عام طور سے بطور غذا چین میں قبل مسیح سے ہوتا رہا ہے۔2838 قبل مسیح میں چین کے شہنشاہ شنگ ننگ (Sheng nung) کی تحریر کردہ کتاب میں بھی اس کا حوالہ ملتا ہے۔ جس میں اس نے پانچ اناجوں (سویا بین، چاول، گندم،جو،باجرا)کو مقدس قرار دیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم 2838 قبل مسیح سے ہی چین میں اس کا استعمال عام ہو چکا تھا۔ چین کے بعد یہ دنیا کے دیگر ممالک جیسے جاپان، انڈونیشیا،فلپائن، ویتنام، تھائی لینڈ، ملیشیا، برما، نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش اورپاکستان وغیرہ میں بھی عام ہو گیا۔ اس کی بھرپورغذائیت اور طبی افادیت کے باعث جاپان، یورپ اور امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک جیسے مصر، جنوبی افریقہ، روس،آسٹریلیا، کوریا، منچوریا اور منگولیا وغیرہ میں بھی اس کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں برازیل، رومانیہ، میکسیکو اور ارجنٹیناوغیرہ میں بھی اس کی کاشت پر توجہ دی جانے لگی ہے۔
سویا بین کا تاریخی پس منظر بڑا عجیب و غریب ہے۔ تاریخ کے مطابق مغربی چین میں سونا چاندی، ہیرے موتی وغیرہ سے لدا ایک تجارتی قافلہ جا رہا تھا کہ راستے میں قافلے کو ڈاکوئوں نے گھیر لیا۔ ان ڈاکوئوں سے بچنے کیلئے تاجروں نے اپنے نوکروں کے ساتھ ایک ایسے غار میں پناہ لی جو چٹانوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس غار میں چھپے ہوئے کئی دن ہو گئے حتی کہ کھانے کا سار اسامان ختم ہو گیا۔ بھوک کی حالت میں ہی ایک نوکر کی نظر ایک عجیب و غریب پودے پر پڑی جو ان لوگوں کیلئے بالکل نیا تھا۔ بہرحال بھوک سے نڈھال ان لوگوں نے ان پودوں کے بیج نکال کرآٹا بنایا اور اسے گوندھ کر اس کے کیک تیار کئے جو کھانے میں انتہائی لذیذ ثابت ہوئے اور اسی کے سہارے ان لوگوں نے کافی دن اسی غار میں گزار دیئے۔ اس طرح حادثاتی طور پر سویا بین کی دریافت ہوئی اور رفتہ رفتہ پورے چین میں اس کا ستعمال عام ہو گیا۔ چین کے بعد جاپان میں اس کا استعمال عام ہوا۔یورپ میں پہلی بار 1972ء میں جرمن ماہر نباتات اینگلی برٹ فانسکر نے جاپان میں دوسال گزارنے کے بعد سویا بین پر باقاعدہ مضمون شائع کر کے اسے متعارف کرایا۔
بر صغیر ایشیا خصوصاً ہندوپاک میں سویا بین کا استعمال کب سے عام ہو اور کس ذریعہ سے وہ یہاں تک پہنچی اس کاکوئی تاریخی ثبوت تو نہیں ملتا۔ ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ مرکزی ایشیا میں آریہ سماج کے لوگ سویا بین کو بھی شہد کی طرح مقدس مانتے تھے۔ ہندوستان کے یوگی اسے انتہائی صحت بخش و مقوی غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔سویا بین ہر لحاظ سے مکمل غذا ہے اس لئے کہ اس میں تمام غذائی اجزاء جیسے لحمیات، کاربوہائیڈریٹ، وٹامنز اور منرلز پائے جاتے ہیں۔سویابین میں کیلشیم ، فولاد اور فاسفورس بھی کافی مقدار میں ملتا ہے۔
تحریر : حکیم نیاز احمد ڈیال
Touseef Falak