Daily Roshni News

سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب کے حالات زندگی اور کرامات (قسط نمبر1)

سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب

سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب

(قسط نمبر1)

بشکریہ ماہنامہ روحانہ ڈائجسٹ اکتوبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سید علی ہجویری المعروف داتا صاحب۔۔۔کے حالات زندگی اور کرامات)چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں فارس کے صو خراسان ( موجودہ شمال مغربی افغانستان )کے شہر غزنی کے ایک محلہ جلاب میں دنیاوی جاہ و حشم سے نیاز مگر علم و فضل کی دولت سے مالا مال سادات کا ایک گھرانہ رہا کرتا تھا، یہ خاندان عراق کے نواح سے ہجرت کر کے غزنی آیا تھا ۔ اس خاندان کی ایک بزرگ ہستی ستید عثمان غزنی جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ محلہ ہجویر کے تاج العلما کے لقب سے مشہور ایک بزرگ ہستی کی پابند صوم و صلوۃ ہمشیرہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ 400 ہجری بمطابق 1009ء میں سید عثمان جلابی کے ہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی جن کا نام سید علی بن عثمان” تجویز کیا گیا۔ سادات گھرانے کا یہ رکن آگے چل کر نور ہدایت کا سرچشمہ اور بر صغیر میں نور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنا۔ سید ابوالحسن علی بن عثمان بن علی الہجویری کو مخلوق خدا آج داتا گنج بخش ؒکے لقب سے یاد کرتی ہے۔

حضرت شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ نے پانچویں صدی ہجری میں بر صغیر پاک و ہند کے شمال مغربی حصے میں اعلائے کلمۃ الحق اور اسلام کی سربلندی واشاعت کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ آپ کی ذات بابرکات سے لاہور کے اطراف واکناف میں روحانیت کے چشمے پھوٹے اور رشد وہدایت کا ایسا نور جاری ہوا جس کا فیض آج تک جاری و ساری ہے۔ والد کی وفات کے بعد علی بن عثمان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ آپ نے چار برس کی عمر میں ابتدائی تعلیم محلہ کے ایک مکتب سے شروع کی ، حروف شناسی کے بعد قرآن کی تعلیم شروع ہوئی۔ قرآنی تعلیم کے بعد عربی فارسی کے اسرار و رموز سیکھے۔ ساتھ ہی فقہ و تفسیر، علم کلام، منطق و فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ علوم و فنون کی طلب میں بہت سے ممالک کی سیر کی۔ اس سیاحت کے دوران اپنے وقت کے نابغہ روزگار اساتذہ کی صحبت میں رہے۔

علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد روحانی علوم کے

گنج بخش ِ فیض عالم

 حضرت معین الدین چشتی ، خواجہ غریب نواز بھی اسی کارواں کے ایک ممتاز فرد ہیں جن کے دم قدم سے ہندوستان میں اسلام پھیلا۔ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو جب ہندوستان میں ترویج اسلام کا حکم ملا تو آپ لاہور کے راستے اجمیر کی طرف روانہ ہوئے مقصد یہ تھا کہ داتا صاحب کے مزار مبارک ہے حاضری دی جائے۔ آپ نے حضرت داتا صاحب کے مزار پر چالیس روز مراقبہ کیا اور بے پایاں فیض روحانی حاصل ہوا۔ حضرت علی ہجویری نے حضرت سلطان الہند پر لطف و عنایت، اسرار و رموز کی جو بارش کی اس کا علم تو حضرت غریب نواز ہی کو ہو سکتا ہے لیکن جب آپ آستانہ عالیہ سے رخصت ہوئے تو اظہار تشکر میں خواجہ معین الدین چشتی نے بے ساختہ فرمایا:

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا

ناقصاں را پیر کامل کا ملاں را رہنما

 پنجاب کے معروف صوفی شاعر حضرت شاہ حسین کو ان کے مرشد حضرت بہلول نے علم باطن سے سرفراز فرمایا، شاہ حسین کی تربیت کے بعد حضرت بہلول نے کوچ کا ارادہ کیا تو شاہ حسین کو لے کر حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر ہوئے اور شاہ حسین سے فرمایا کہ : ”بیٹا یہ میرے بھی مرشد ہیں اور تیرے بھی مرشد ہیں، اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا۔ حضرت بہلول کی روانگی کے بعد شاہ حسین کا یہ معمول تھا کہ رات میں حضرت علی ہجویری کے مزار پر تلاوت میں مصروف رہتے اور صبح روزہ رکھ کر مدرسے چلے جاتے۔ اللہ کے ایک ولی حضرت علی ہجویری کے مزار پر تقریباً 17 برس حاضر ہو کر شاہ حسین عشق اور تصوف کی کئی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ریاضت کے انہی دنوں میں آپ کو کئی بار حضرت ہجویری کی زیارت بھی ہوئی۔

 شہنشاہ جہانگیر کے بعض مصاحبوں نے ، اس وقت کے مشہور بزرگ شیخ عبدالحق کے خلاف بادشاہ کو اتنا بھڑکا یا کہ وہ ان بزرگ کے خلاف کارروائی کرنے پر تیار ہو گیا اور حکم جاری کیا کہ ہندوستان چھوڑ کر کابل چلے جائیں۔ گھر بار سے جدا ہو کر جب شیخ عبد الحق آپ لاہور پہنچے اور داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر حاضر ہوئے۔ بڑی دیر تک اشک بار آنکھوں کے ساتھ داتا صاحب کو اپنی بپتا سناتے رہے۔ جب کچھ دل ہلکا ہوا اور آپ مزار سے باہر نکلنے لگے تو اچانک خیال آیا کہ جیسے داتا صاحب ان سے کہہ رہے ہوں کہ لاہور میں حضرت میاں میر سے ملاقات کرو۔ اس خیال کو داتا گنج بخش کا فیض سمجھ کر شیخ عبد الحق حضرت میاں میر سے ملے اور اپنے اوپر ہونے والے شاہی عتاب کا ذکر کیا۔ حضرت میاں میر نے فرمایا، آپ یہیں ، میرے پاس رہیے ۔ آپ انشاء اللہ دہلی ہی میں رہیں گے۔ شیخ عبدالحق کو کچھ اطمینان تو ہوا لیکن بے یقینی تھی۔ ابھی حضرت شیخ عبد الحق لاہور میں مقیم تھے کہ شہنشاہ جہانگیر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کچھ ہفتوں بعد شیخ عبد الحق اپنے فرزند کے ساتھ واپس دہلی روانہ ہو گئے۔

 بر صغیر کی مسلمہ علمی فکری و روحانی شخصیت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانی نے بھی داتا گنج بخش کے مزار اقدس پر حاضری دی اور اکتساب فیض کیا اور پھر فرمایا: ” مزار اقدس سے انوار و تجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام بلاد ہند مستفیض ہو رہے ہیں بے شمار لوگوں نے حضرت داتا گنج بخش سے روحانی فیض حاصل کر کے اکتساب علم کیا۔ الحمدللہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کو بھی یہ سعادت ہے کہ یہ سلسلہ بھی حضرت داتا گنج بخش کے فیض سے مالا مال ہے۔

لیے کسی ولی اللہ کی تلاش میں نکلے ۔ آپ نے غزنی، عراق میں علم و حکمت کے خزانے ذخیرہ کئے۔ اس وقت کے ممتاز روحانی بزرگوں سے فیض حاصل کیا اس کے بعد کچھ عرصہ بغداد میں قیام پذیر رہے۔ وسطی ایشیاء کے مختلف ممالک کا سفر اختیار کیا۔ مرشد کی تلاش میں سید علی بن عثمان نے آذر بائیجان، خوزستان، اور ترکستان کے طویل سفر اختیار کئے۔ سفر کرتے ہوئے بالآخر شام پہنچے۔ سید علی بن عثمان وہاں بلال حبشی کے مزار پر حاضر ہوئے۔ ملک شام میں ہی حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی کی صحبت اور بیعت حاصل ہوئی جو حضرت جنید بغدادی کے سلسلہ جنیدیہ کے ایک بزرگ تھے۔ محمد بن حسن ختلی بھی گویا آپ ہی کے منتظر تھے

محمد بن حسن ختلیؒ گوشہ تنہائی کی تلاش میں پہاڑوں کی جانب نکل جاتے مگر لوگ پھر بھی پیچھا نہ چھوڑتے ۔ آپ عموماً جیل حکام میں قیام پزیر ہوتے۔ یہ سلسلہ کوہ لبنان کا حصہ ہے۔ یہاں حضرت ابوالفضل ختلی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گوشہ نشینی میں گزار دیا، آپ یہاں اپنے چند ہو نہار مریدوں پر اپنی توجہ صرف کرتے۔ انہی مریدوں میں سید علی بن عثمان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ سید علی کی باطنی تربیت کے آغاز میں مرشد نے پہلا سبق یہ دیا کہ رزق کا استعمال صرف یاد خدا کے لئے توانائی حاصل کرنے کے لئے ہو۔ زیادہ دیر سونا غفلت کی نشانی ہے۔ تیسری شے فضول گفتگو سے پر ہیز ہے۔ یعنی کم کھانا، کم سونا اور محدود کلام …. مرشد کی زیر نگرانی علی بن عثمان کی راہ سلوک کے مراحل طے ہونے لگے ….!

روحانی اُستاد نے ساتھ رکھ کر سید علی بن عثمان کی تربیت فرمائی۔ شب و روز مرشد کے افعال و کردار کا مشاہدہ رہا۔ اسی دوران سید علی نے معروفت و سلوک کے کئی مراحل طے کئے۔ تحصیل علوم اور ریاضتوں کا سلسلہ جاری رہا، ابوالفضل ختلی کو ہ لکام (بیت الجن) سے نکل کر دمشق تشریف لے گئے تو نوجوان مرید سید علی بھی ہمراہ تھے۔ حضرت سید علی ہجویری کو اپنے پیرومر شد حضرت شیخ ختلی سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ ہمہ وقت پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر رہتے ۔ ایک دن حضرت شیخ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ” علی اپنے ظرف کو مزید وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے دیگر صوفیاء کے در پر حاضری دو…. تمہیں رخصت ہونا ہو گا۔ ابھی سلوک کی اور منازل ہیں جو تمہیں طے کرنی ہیں۔“

شیخ ختلی نے سید علی کو خلافت عطا کرتے ہوئےفکر میں وسعت کے لئے سیاحت کا حکم دے دیا۔ سید علی ہجویری گو پیر و مرشد سے جدائی ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں تھی۔ حضرت شیخ ختلی نے اپنے محبوب مرید کی دلی کیفیات کا اندازہ کرتے ہوئے فرمایا۔ علی ! بظاہر یہ منزل فراق ہے مگر تم مجھ سے دور نہیں رہو گے۔ یہ دوری نہیں، حضوری ہے“ الغرض سید علی بن عثمان، شیخ ختلی کی دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوئے۔

 حصول علم ، تزکیہ باطن کے لیے قدیم صوفیاء کرام کا معمول تھا کہ وہ مختلف ممالک کی سیاحت کرتے تھے ، سید علی بن عثمان نے بھی اپنے مرشد کے حکم پر کئی طویل سفر اختیار کیے۔ راہ سلوک و معرفت میں انہوں نے کئی مجاہدے اور ریاضتیں کیں۔ مغربی مفکر پروفیسر نکلسن کی تحقیق کے مطابق۔۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2019

Loading