Daily Roshni News

سیرت طیبہﷺ۔۔۔تحریر۔۔۔  خواجہ شمس الدین عظیمیؒ۔۔۔قسط نمبر1

سیرت طیبہﷺ

تحریر۔۔۔  خواجہ شمس الدین عظیمیؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ سیرت طیبہﷺ ۔۔۔ تحریر۔۔۔  خواجہ شمس الدین عظیمیؒ )مسلمانوں کے باعزت ہونے کا باوقار ہونے کا اور جو رہی دنیا ہر علیہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بار بار یا میں اللہ کے محبوب ﷺ نے جن باتوں کو پسند کیا ہے وہ باتیں اختیار کرلی جائیں اور جن باتوں سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔

اس وقت کی صورت حال بڑی عجیب ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اضطراب، بے چینی، پریشانی اور ابتلا میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ اغیار کا تسلط ہے۔ مسلمان قوم دست نگر ہے۔ قرض میں جکڑی ہوئی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم علوم میں بھی دوسروں کے محتاج بن گئے ہیں۔ اگر مغرب سے علم نہ آئے تو ہم تہی دست ہیں۔ اس وقت جتنی ٹیکنالوجی ہے وہ سب باہر سے منتقل ہوتی ہے۔
جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر غور کرتے ہیں تو وہ ہر جگہ فاتح کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ تاریخ میں ان کا نام ہے، ان کا وقار ہے، ان کی عزت ہے۔ جو پوزیشن آج امریکہ اور یورپ کی ہے اس سے کہیں بڑھ کر کبھی مسلمانوں کی تھی۔ ہمارے علم سے دوسروں نے خوشہ چینی کی ہے۔ یورپ میں جتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، جتنے بڑے بڑے کالج ہیں، وہ ہمارے اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ کوئی بھی علم ہو، جغرافیہ کا علم ہو، طب کا علم ہو، آسمانی علوم ہوں، زمینی علوم ہوں، زمین کی پیمائش ہو، جس علم کے بارے میں بھی آپ تاریخ پڑھیں گے آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ یورپ اندھیرے میں گم تھا۔ انہوں نے عربی کتابوں کے تراجم کئے۔ اپنی لائبریریوں میں ان کو جمع کیا اور اپنی یونیورسٹیوں میں داخل نصاب کر کے انہوں نے علم حاصل کیا۔
محترم دوستو! ہم اس لیے پریشان ہیں، اس لیے بے سکون ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کے راستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، مسلمانوں کی اولاد ہیں، مسلمانوں کی نسلیں ہیں لیکن ہمارے اسلاف کے اعمال میں اور ہمارے اعمال میں زمین آسمان کافرق ہے۔
ہمارے اسلاف میں اور ہم میں فرق کیا ہے ؟

یہ ایک بڑا سوال ہے۔ میری سمجھ میں اس کی وجہ یہ آتی ہے کہ ہمارے اسلاف میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ ہمارے اسلاف کے اعمال، افعال اور کردار میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ وابستگی تھی۔ وہ ہم سے بہت زیادہ اللہ اور رسولﷺ کو مانتے تھے۔ ہم بھی مانتے ہیں، الحمدللہ! ہم بھی مواحد ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں۔ لیکن ہمارے اندر وہ لگن، تڑپ، تجسس، تحقیق، تفکر اور تلاش نہیں رہی جو ہمارے اسلاف میں تھی۔ ہمارے اسلاف اللہ پر اور اللہ کے رسولﷺ پر ایمان کے مفہوم سے باخبر تھے، ہم ایمان کے مفہوم سے باخبر نہیں ہیں۔ ہمارے اسلاف اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کے حامل تھے، ہم صرف اقرار باللسان میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہمارے اسلاف قول و فعل کے سچے تھے۔ ہمارے اسلاف میں قناعت تھی۔ ہمارے اسلاف میں اس بات کا یقین تھا کہ جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں، جو کچھ ہم خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم دیتے ہیں، یہ سب اللہ کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قربت کا احساس ہمہ وقت ان کے اندر رہتا تھا۔

اب سوچنا یہ ہے کہ ہم اپنا حال کس طرح بہتربنا سکتے ہیں….. ؟

سیدھی بات ہے کہ اپنے اسلاف کی سیرت، اپنے اسلاف کے معاملات پر غور کریں، ان کے نقش قدم پر چلیں، ان شاء اللہ عروج حاصل ہوجائے گا۔
رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے سامنے ہے۔ کوئی بھی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہﷺ کے عفو و درگزر سے ہم واقف نہیں ہیں لیکن پھر گھر گھر میں فساد برپا کیوں ہے، میاں بیوی میں لڑائی ہے، اولاد باپ سے خفا ہے، باپ اولاد سے خفا ہے۔

کہا جاتا ہے جنریشن گیپ آ گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں، ہر آدمی دوسرے کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا کوئی آدمی نہیں سوچتا کہ میری بھی اصلاح ہونی چاہئے۔
ہرسال میلاد النبیﷺ منائی جاتی ہے۔ میلادالنبیﷺمنانا بڑی سعادت ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں نعتیں پیش کی جاتی ہیں۔ ذکر نبی ہوتا ہے اخلاق حسنہ پر تقاریر ہوتی ہیں۔ تزکیۂ نفس کی باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، خود محسوس کیا ہے کہ ماحول میں نور کی بارش ہوتی ہے۔ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ حاضرین وجدانی کیفیت میں سرشار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم مجلس سے باہر آتے ہیں۔ وہی ہمارے شب و روز ہوتے ہیں۔ ہم ایسے کئی کام شروع کر دیتے ہیں جن سے ہمارے آقاﷺ نے منع فرمایا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ درود شریف ایک ایسی فضیلت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔‘‘اللہ اور اللہ کے فرشتے، ان نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی آپﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجو۔ ’’
ہر مسلمان جانتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر کوئی آدمی درود پڑھتا ہے تو حضور پاکﷺ کو درود پہنچتا ہے۔
اگر ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہو جائے کہ ہم نے درود شریف پڑھا ہے۔ رسول اللہﷺ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اس یقین کے بعد بتایئے کیا ہمارے اندر ایمان پختہ نہیں ہو جائے گا؟ ضرور ہو جائے گا۔ ہم کہتے ہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ حاضر و ناظر ہے۔ کوئی بھی آدمی جب گناہ کرتا ہے تو وہ اس بات کا اطمینان کر لیتاہے کہ “مجھے کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟”۔ ایک آدمی چوری کرتا ہے۔ اس بات کا اطمینان کر لیتا ہے کہ “مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔” جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا تب وہ چوری کرتا ہے۔

اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ اللہ دیکھ رہاہے تو ہم چوری کیسے کر سکتے ہیں، برائی کس طرح سرزد ہو سکتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ ہمارا صرف زبانی بیان ہے۔ یہ اقرار باللسان ہے۔ تصدیق بالقلب نہیں ہے۔ اگر تصدیق بالقلب ہو جائے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم ہر اس بات سے خود بخود رک جائیں گے جو اللہ کے لیے ناپسندیدہ ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیاہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ راسخ فی العلم ہوتے ہیں یا علم حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے علم میں مستحکم ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ یہاں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے نہ ہو۔
جینا، مرنا، ہوا کا چلنا، بارش برسنا، دن نکلنا، رات کا ہونا، موسموں کو تبدیل کرنا، ماں کے پیٹ ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2017

Loading