شان قلندر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔شان قلندر )قلندر “ لفظ کی ابتدا کب کیسے اور کہاں ہوئی اس بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جاسکتی لیکن خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ عربی زبان کے لفظ قلد سے اخذ ہے، جو آزاد چھوڑی چیزوں کے لیے مستعمل ہے جیسا کہ کسی چیز کو کھونٹے یا گلے میں لٹکا کر چھوڑ دیا جائے ، اسی طرح کسی فرد کے لیے بھی عربی میں کہا جاتا ہے قلد خبله یعنی وہ آزاد چھوڑ دیا گیا۔ فارسی زبان میں لفظ قلندر کے لغوی معنی آزاد منش کے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ قلندر دراصل فارسی لفظ کلانتر کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی بزرگ تر “ کے ہیں، عہد سلجوقی میں کلانتر نام کا ایک عہدہ ہو تا تھا۔ لیکن قلندر کے معروف معنی ”مردآزاد“ ہی لیے جاتے ہیں۔
کسی زبان سے جب کوئی لفظ دوسری زبان میںجاتا ہے تو بعض اوقات اخذ کرنے والی زبان میں اُسلفظ کا مطلب تبدیل ہو جاتا ہے۔اردو زبان میں عام طور پر قلندر یعنی مرد آزاد کا مطلب ایسے فرد کے لیے بھی لیا جاتا ہے جو مجذوب یا دیوانہ ہو، یا جو اپنے وجود اور دنیا و مافیہا سے بے خبر اور لا تعلق ہو ، یا پھر تارک الدنیا ہو، معاش کی فکر سے لا پرواہہو، یا جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو۔ خانواده سلسلہ عظیمیہ الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی سے ایک بار ایک صاحب نے دریافت کیا کہ قلندر کے کہتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا۔قلندر کوئی عہدہ نہیں ، یہ ایک طرح کی طرز فکر ہے۔ نیوٹرل طرز فکر رکھنے والے ذہن کو قلندر کہتے ہیں۔ ذہن جب انا کے خول سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ نیوٹرل کہلا تا ہے۔ جب بندہ یہ جان لیتا ہے کہ انسان کو عطا کی گئی صلاحیتیں اللہ کی طرف سے بخشش ہیں۔ انسان کی ملکیت نہیں ہیں۔ قلندر آزاد ذہن، ملکیت سے آزاد ذہن، نیوٹرل طرز فکر رکھنے والے بندے کو کہتے ہیں۔
“ملکیت سے آزاد یعنی قلندرانہ طرز فکر کیا ہے؟ طرز فکر ایک ایسا روٹین ہے جس پر ذہن ارادیاور غیر ارادی دونوں حالتوں میں یکساں طور پر حرکت کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طرز فکر انسان کی طبع اور فطرت بن جاتی ہے، جس پر وہ قائم اور مستحکم ہو جاتا ہے۔
انسان کو طرز فکر کے انداز عطا کیے گئے ہیں۔ ایک طرز فکر میں انسان محدودیت میں اور پابند رہ کر زندگی گزارتا ہے اور زندگی کی قدروں کو ٹائم اینڈ اسپیس کی حدود میں پہچانتا ہے۔ دوسری طرز فکر لا محدودیت اور آزاد فکر ہے۔
آزاد طرز فکر اپنے حامل بندہ کو خالق کی معرفت عطا کرتی ہے۔ یعنی بندہ کا ذہن ذات اور کائنات سے ہٹ کر ذات خالق کی صفات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ اس طرز فکر میں وہ ہر شے کا اور اک اللہ کے ارادہ کے ذریعہ کرتا ہے۔ اور اک کے ذریعے انسان حقیقت کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ حقیقت کی تلاش اسے اللہ سے مزید قریب کر دیتی ہے اور اس کے تمام اور اک اور تمام شعور نقطہ وحدانی کی گہرائیوں میں سمٹنے لگتے ہیں۔ جب تمام اور اک ایک نقطہ میں سمٹ جاتے ہیں تو صرف ایک ہی اور اک باقی رہ جاتا ہے وہ اللہ کا ادراک ہے۔
ایسے بندوں کی طرز فکر میں یہ بات یقین کا درجہ رکھتی ہے کہ ہماری حیثیت محض ایک معمول کی ہے اور ہم اللہ تعالی کی مشعیت کے مکمل طور پر تابع ہیں۔ جب وہ اللہ تعالی کو پکارتے ہیں تو وہ صرف اور صرف اس لئے اللہ کو پکارتے ہیں کہ ان کے سامنے اللہ کے علاوہ کچھ اور ہوتا ہی نہیں ہے۔ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم صادر ہوتا ہے وہ اس کی تعمیل کرنے میں ہچکچاتے ہیں اور نہ ہی چوں چرا ان کے ذہن میں آتی ہے۔ ایسا ان کی آزاد طرز فکر کے سبب ہوتا ہے۔ایک خاص طرزِ فکر رکھنے والا بندہ جب ایک مخصوص تعلیم سے آراستہ ہو جاتا ہے تو اس بندے کو قلندر کہا جاتا ہے ۔ یہ طرزِ فکر صرف اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب ذہن انا کے خول سے آزاد ہو جاتا ہے۔ جب ایسا بندہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے چاروں شعبوں پر محیط تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاتا ہے تو اس بندے کو قلندری کا مقام مل جاتا ہے۔ جس بندے کو قلندری مل جائے وہ ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہو جاتا ہے ۔ وہ جان لیتا ہے کہ زمانیت بھی اللہ تعالی کی ایک تخلیق ہے اور یہ کہ مکانیت کا اس سے کیا رشتہ ہے ۔ وہ انسانوں میں کار فرما صلاحیتوں کو انسانوں کی ملکیت نہیں سمجھتا بلکہ ان کو بخشش اور عطا کے طور پر ملی ہوئی نذر خیال کرتے ہوئے استعمال کرتا ہے ۔ ملکیت سے آزاد ہو تا ہے ۔ تصور ملکیت کی نفی میں وہ اس درجہ آگے نکل چکا ہوتا ہے کہ وہ جسم و جان سے لے کر اپنے علم و وجدان تک ہر شعبے کا مالک اللہ کو قرار دیتا ہے۔ قلندر کا کل سرمایہ صرف وہ الفاظ ہوتے جو وہ اللہ کی صف میں بیان کرتا ہے ۔ اسی بات کو علامہ اقبال نے اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتانقیبہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کایعنی قلندر کا سرمایہ صرف دو الفاظ ”لا الہ“ کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ فقیہ شہر زبان کی بھاری بھر کملغت کا حافظ ہوتا ہے۔ قلندر اللہ تعالی کے سوا کسی اور کا اقتدار ماننا تو بڑی بات ہے ، اس کو برداشت تک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کے نزدیک مقتدر اعلیٰ ہستی اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتی ۔ علامہ اقبال ایک شعر میں قلندر کی اس فکر کو ان الفاظ میں متعارف کرواتے ہیں۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرانہ تن زندگی ہے ہر لمحے ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو جانتا، پہچانا اور اس پر عمل کرنا ہی آزاد طرز فکر یا قلندر شعور ہے۔ جیسا کہ سلطان الہند غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے فرمایا ہے
یار دم بدم آید و بار بار می آید یعنی اللہ میرا یار ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہہر سانس میں میر ایار میرے ساتھ ہے۔“تصوف کی اصطلاح میں ” قلندر ” ایسے صوفی” کو کہتے ہیں جس کی چشم حقیقت کے سامنے شئے کی شیئت مظہر بن گئی ہو۔ قلندر“ وہ ہے جو “وحدت” میں غرق ہو کر “مرتبہ احدیث” کا مشاہدہ کرتا رہے۔ مشاہدے کے بعد انسانی مرتبے پر واپس پہنچ کر عبدیت“ کا مقام حاصل کرے۔ جزو میں کل اور کل میں جزو کو دیکھے۔قلندر سوز و مستی جذب و شوق کا متحرک پیکر ہے۔ وہ من کی دنیا کو پالیتا ہے اس طرح وہ عشق کو پالیتا ہے، خالق کو پالیتا ہے، قلندر آزادی کا پیکر ہے، تکلیفات رسمی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اپنے وجود کو سمیٹے اللہ کے جلال و جمال سے رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ حدیث نبوى مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عرف ربه. “جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“ کی عملی تفسیر بن کر قلندر کا یہ سفر خودشناسی سے شروع ہو کر بندے کو خداشناسی تک لے جاتا ہے اور اس سفر میں جب بندہ اپنی خودی کی حقیقت کو پہچان کر خود اپنی ہی خودی میں گم ہونے کی بجائے اپنی خودی کو خداشناسی میں گم کر دیتا ہے جب بندہ مقام فنا سے مقام بقا پر فائز ہو جاتا ہے۔ یعنی انسان کا شعوری سفر اپنے احساس نفس سے اپنی معرفت اور پہچان کی حقیقت کے ساتھ جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت حاصل ہو گی اور یہ معرفت اس کو رب کی محبت میں فنایت کی منزلوں کی طرف لے جاتی ہے۔
قلندر اللہ تعالی کی ذات اعلیٰ و برتر کے سوا ہر شئے، ذات اور ہستی کی نفی کرتے کرتے اس مقامپر پہنچ جاتا ہے کہ جہاں ہر دوئی مٹ جاتی ہے اور من تو شدم تو من شدیکا معاملہ بن جاتا ہے ۔ یہ مقام محبوبیت سے بھی ارفع و اعلیٰ ہے کیونکہ محبوبیت میں پھر بھی دوئی باقی رہتی ہے۔ ایک عاشق ہوتا ہے تو دوسرا معشوق لیکن قلندری کا مقام نفی کی ایسی صورت ہے جہاں دوئی کا گزر ہی نہیں رہتا۔ ایسے بندوں کو اللہ تعالی اپنا ایسا قرب عطا فرماتے ہیں جس کے بارے میں حدیث قدسی ہے کہ : میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان ، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے بولتے ہیں اور میرے ذریعے ہی چیزیں پکڑتے ہیں۔“ [بخاری، ابن حبان، بیہقی ] قلندرانہ طرز فکر کے حامل بندوں میں ایک نام سید محمد عظیم بر خیا قلندر بابا اولیاء کا بھی ہے، قلندر بابا نے اپنے نانا حضرت تاج الدین اولیاء ناگپوری کے پاس نو سال تک مقیم رہے ۔ تاج الدین
اولیاء نے نو سال تک ان کی روحانی تربیت فرمائی۔ سلسلہ سہر وریہ کے
بزرگ قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروری نے آپ کو اپنی بیعت میں لے کر قطب ا
رشاد کی تعلیمات
دے کر سلسلہ سہروردیہ کی خلافت سے نوازا۔ اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبری کی روح پر فتوح نے آپ کی روحانی تعلیم شروع کی اور یہ سلسلہ فردوسیہ کی خانوادگی پر منتج ہوا۔ قلندر بابا اولیا” نے 1960ء میں سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھی۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017