Daily Roshni News

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔۔۔ تحریر۔۔۔قرة العین واسطی

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

(قسط نمبر1)

تحریر۔۔۔قرة العین واسطی

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔۔۔ تحریر۔۔۔قرة العین واسطی)جس کے دل میں یہ عقیدہ گھر کر جائے اس کا مطمح نظر صرف وہ مقامات اور درجات ہوتے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قرب سے ہے، وہ دنیا و مافیہا کو ڈھلنے والا سایہ اور محض بے حقیقت چیز سمجھتا ہے۔

بزرگ فرماتے ہیں کہ درخت اپنی اصل کے مطابق اگتا ہے اور اناج کی خوبی تخم کی موجودگی کے سبب ہے۔ سعید ماں باپ کی اولا دسعید ہوتی ہے۔ شاہ عبدالرحیم دنیائے معرفت میں بڑا نام ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان کے بیٹے ہیں ۔

کتاب ” انفاس العارفین“ میں لکھا ہے کہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی پیشین گوئی کی بنا پر آپ کا نام قطب الدین رکھا گیا۔ ولیوں جیسے اخلاق و اطوار کی وجہ سے سب نے ان کو ولی اللہ کہنا شروع کیا۔ یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ زبان زد عام ہو گیا۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ علمی قابلیت کم عمری میں ہی نمایاں تھی ۔ پندرہ سال کی عمر میں کئی کتابیں پڑھ لی تھیں۔ والد نے اسی سال شادی کرادی۔ اپنی شادی سے متعلق فرماتے ہیں، والد ماجد نے اس بارے میں بہت مجلت فرمائی ۔ یہاں تک کہ سرال والوں سے کارخیر کو انجام دینے کا تقاضا کیا تو ان لوگوں نے سامان شادی تیار نہ ہونے کا عذر کیا۔

 والد نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے لکھا کہ میرا اصرار بے وجہ نہیں لہذا یہ کام بلا تاخیر ہونا چاہئے ۔ شادی کے چند روز بعد میری ساس کا انتقال ہو گیا ۔ تھوڑے دن گزرے تھے کہ اہلیہ کے نانا وفات پا گئے۔ چند دنوں بعد میرے بزرگوار شیخ عبدالرزاق کے صاحب زادہ فخر عالم دنیا سے رخصت ہوئے ۔ صدمہ تازہ تھا کہ میری سوتیلی والده رحلت کر گئیں۔ پھر والد صاحب کو مختلف امراض نے آگھیرا اور ان کا سایہ عاطفت ہمارے سر پر سے اٹھ گیا۔ جہاں تک ہم سمجھ سکتے ہیں ان کے جلدی کرنے میں یہی راز تھا۔“ شاہ عبدالرحیم نے انتقال سے پہلے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرتے ہوئے فرمایا، ”میرے بعد اس کے ہاتھ کو میرا ہی ہاتھ سمجھو ۔“ شاہ ولی اللہ نے ظاہری و باطنی علوم والد سے حاصل کئے ۔ شاہ عبدالرحیم نے بیٹے کو غور و فکر کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔ فرماتے ہیں،حق تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت تھی کہ میں نے کئی بار والد صاحب سے متن قرآن پڑھا ۔ یہی میرے حق میں فتح عظیم کا باعث ہوا۔ فہم قرآن کی راہ مجھ پر کھل گئی۔

انہوں نے وصیت میں لوگوں کو فہم قرآن کی تلقین فرمائی۔ وصیت نامہ میں سے مختصر اقتباس پیش ہے، ” قرآن عظیم کا درس اس طریقہ پر دینا چاہئے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں ۔ الفاظ کی معنویت میں دشواری پیش آئے تو رک کر تحقیق و تفکر کریں۔ اس سے مشکل الفاظ سے متعلق مدد مل جاتی ہے ۔ قرآن کے معانی کو سمجھنے کے لئے ہمیشہ غور اور تدبر سے کام لیں اور برابر اس میں مشغول رہیں۔ اس طریقہ درس سے بڑے بڑے فیض حاصل ہوتے ہیں۔“

شاہ ولی اللہ 12 سال درس و مطالعہ میں مشغول رہنے کے بعد 1143ھ میں بیت اللہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوئے ۔ حجاز مقدس میں ایک سال قیام کیا۔ زیادہ وقت مدینہ منورہ میں گزارا۔ اساتذہ کرام سے ظاہری و باطنی علوم حاصل کئے۔ ان میں نمایاں شیخ ابو طاہر مدنی ہیں جن سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ فیوض الحرمین – شاہ ولی اللہ کے مشاہدات پر ستی ہے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ہوئے ۔ آخری مشاہدہ” کے عنوان سے لکھتے ہیں، میں خانہ کعبہ میں داخل ہوا ۔ میں نے اپنے باطن کی طرف توجہ کی تو مجھ پر صراط مستقیم کی حقیقت کی تجلی مشتمل ہوئی ۔ صراط مستقیم کی حقیقت کو ایک دفعہ رسول اللہ نے اس طرح بیان فرمایا۔ آپ نے ایک خط کھینچا اور پھر خط کے دونوں طرف آپ اور خط کھینچتے چلے گئے۔ اور آخر میں فرمایا، یہ بیچ کا خط صراط مستقیم ہے۔ الغرض مجھ پر کعبہ میں صراط مستقیم کی جلی ہوئی اور میں نے دیکھا کہ نفوس انسانی کے احوال و کوائف کے بیچوں بیچ صراط مستقیم کی یہ حقیقت موجود ہے۔ صراط مستقیم عبارت ہے احکام الہی کی اطاعت اور فرماں برداری میں ثابت قدم رہنے سے ۔“

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جن طلبا کو علم دین کا درس دیتے تھے، انہیں پہلے قرآن کا متن پڑھاتے تھے جس سے آیات کا مفہوم ذہن نشین ہو جا تا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کریم کا فارسی ترجمہ کیا ۔ ”فتح الرحمن” کے نام سے برصغیر پاک و ہند میں یہ فارسی زبان میں قرآن کا پہلا ترجمہ تھا جس پر مخالفین نے شور مچادیا اور قتل کا حکم دیا۔ قلندر بابا اولیا نے شاہ ولی اللہ کے صاحب زادہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے متعلق ایک روحانی تمثیل میں اس واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔ مختصر پیش ہے، دہلی کی مسجد فتح پوری میں عصر کی جماعت کھڑی ہو گئی تھی۔ امام نے نیت باندھی مسجد کے باہر شور بلند ہوا۔ لوگ شیخ رہے تھے ، اس شخص کو مارو۔ لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں، کچھ کے پاس منجر تھے اور تلوار میں تھیں اور کچھ نہتے تھے ۔ سب نعرے لگا رہے تھے۔ مار دو قتل کر دو۔“

 ان لوگوں کا ہدف شاہ ولی اللہ تھے جو اطمینان سے نماز ادا کر رہے تھے۔ بلاخوف و خطر نماز پڑھنے کے بعد چاروں طرف دیکھا۔ معتقدین نے کہا ، نکل چلئے ، یہ لوگ دشمن ہیں۔ خدا نہ کرے کیا کر جائیں۔ آپ چھوٹے دروازہ سے نکل جائیں ۔ فرمایا، کیا یہ لوگ خدا کے گھر کو مقتل بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارا وقت نہیں آیا ہے تو کوئی ہمارا بال تک بیکا نہیں کر سکتا اور اگر وقت آ گیا ہے تو ہر شخص کو جانا ہے۔ شور بلند ہوا’ پکڑ لو، جانے نہ پائے ، اس نے دین میں پیوند کاری کی ہے۔ اس کے ساتھی بھی سزا کے مستحق ہیں۔ نعروں کے شور میں کچھ لوگ مسجد کے صحن میں گھس آئے۔ شاہ ولی اللہ نے پوچھا، کیا تم ہمیں قتل کرنے آئے ہو؟ ایک شوریدہ سر نے کہا، ہاں ! آپ اس قابل نہیں ہیں کہ آپ کو زندہ چھوڑا جائے ۔ پوچھا، ہمارا جرم کیا ہے؟ حقارت اور طنز سے جواب دیا اپنا جرم معلوم نہیں ؟ اب تجھے آپ کی بجائے تو سے مخاطب کروں گا، کیا تو نے کلام پاک کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا، کیا یہ تو ہین نہیں ہے؟ شاہ ولی اللہ کو غصہ آ گیا۔ ہاتھ میں چھڑی تھی ۔ چھڑی اٹھائی اور اللہ ھو کا نعرہ بلند کیا ۔ کیا اثر تھا اس نعرہ میں ، شاہ صاحب اور ان کے ساتھی یکے بعد دیگرے مسجد سے نکل گئے۔ مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا۔

اب شاہ صاحب کھاری باؤلی تک پہنچ گئے تھے کسی نےزور سے پکارا، یہ بہروپیا بھاگنے نہ پائے ۔ لیکن نعرہ بے اثر ثابت ہوا ۔ لوگ بت بنے کھڑے تھے جیسے پتھرکے مجسمے ہوں ۔ گھر پہنچے تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اس وقت چھوٹے تھے، والد سے لپٹ گئے اور رونے لگے۔ ہاؤ ہو کی اطلاع دتی میں پھیل چکی تھی۔ فرمایا، بیٹے ! تجھے معلوم نہیں کہ یہ دنیا والے میرے اور تیرے نبی کو کیا کیا اذیتیں دے چکے ہیں۔ آنسو پونچھ لو۔ ہم عن قریب جانے والے ہیں، ہماری میراث علم ہے، تم اسے سنبھال لو۔ بیٹے نے گردن جھکالی اور عرض کیا، جو اللہ کی مشیت ! اگر اللہ ہم سے یہ خدمت لینا چاہتا ہے تو ہم اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس علمی اور عملی خدمت میں خرچ کر دیں گے۔“ (احسان و تصوف) والد کے نقش قدم پر چل کر دو فرزندان شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے قرآن کریم کا اردو ترجمہ کیا۔

شاہ ولی اللہ نے دس حکم رانوں کا زمانہ دیکھا ۔ اور نگ زیب عالمگیر کی وفات سے چار سال پہلے پیدا ہوئے اور 1176 ھ میں شاہ عالم ثانی کے عہد میں سرائے فانی کو الوداع کہا۔ اور نگ زیب کی وفات کے بعد مغلوں کی عظیم الشان سلطنت اخلاقی بیماریوں کے سبب محکوم ہوگئی ۔ مرہٹوں نے بڑے حصہ پر قابض ہونے کے بعد دہلی کی جانب۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading