Daily Roshni News

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔۔۔ تحریر۔۔۔قرة العین واسطیَ۔۔آخری قسط

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

(قسط نمبر (2

تحریر۔۔۔قرة العین واسطی

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔۔۔ تحریر۔۔۔قرة العین واسطی)پیش قدمی کی۔ شاہ ولی اللہ نے دیکھا کہ مغلیہ خاندان کم زور ہو گیا ہے تو والی افغانستان احمد شاہ ابدالی کو مرہٹوں سے مقابلہ کی دعوت دی۔ احمد شاہ ابدالی نے دعوت قبول کی اور مرہٹوں کو بے بس کر دیا ۔

اس دور میں مسلمانوں کی سماجی واخلاقی حالت زوال پذیر تھی۔ آرام طلبی، عیش وعشرت، بے ایمانی اور اس قبیل کی دوسری خرابیاں عام تھیں۔ شاہ ولی اللہ نے تصنیف و تالیف کے ساتھ اخلاقی و سماجی اصلاح کا کام کیا ۔ مسلمانوں میں تفرقہ ختم کرنے کی کوشش کی اور اعتدال پر زور دیا۔ کوشش تھی کہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوتا کہ وہ پھر سے مضبوط سلطنت قائم کریں۔

 طاعت نفس و ہوا، اس زمانہ کی ایک لاعلاج بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی رائے پر چلتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے چلا جا رہا ہے۔ احکام کے معنی اور اسرار پر ہر ایک اپنی عقل سے کام کر رہا ہے اور جو کچھ جس نے سمجھ لیا ہے اس پر دوسروں سے مناظرہ اور مباحثہ کر رہا ہے۔ ہر ایک اپنے طریقہ میں تعصب برتا ہے اور دوسروں کے طریقہ پر اعتراض کرتا ہے۔ تخریبات کی کثرت ہے اور حق اس غبار میں چھپ گیا ہے۔”

معاشرتی اثرات کی وجہ سے مسلمانوں میں بیوہ عورتوں کی شادی بری سمجھی جانے لگی ، آپ نے اس رسم کی مخالفت کی اور خوشی و غم کے موقع پر لوگوں کو فضول خرچی سے بھی روکا۔ اے اولاد آدم! تم نے اپنے اخلاق کھو دیئے ۔ تم پرسنگ دلی چھا گئی اور شیطان تمہارا محافظ بن گیا۔

عورت مردوں پر حاوی ہوگئی اور مردوں نے عورتوں کی تذلیل کی ہے۔ حرام میں تمہیں مزہ آتا ہے۔ اور حلال تمہارے لئے بد مزہ بن گیا ہے۔ اے اولاد آدم ! تم نے فاسد رسمیں اختیار کرلی ہیں جن سے تمہارا عقیدہ صراط مستقیم پر قائم نہیں رہا۔ کوئی اپنے کاروبار میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ نماز کے لئے وقت نہیں ہوتا اور کوئی تفریحی خوش گپیوں میں اس قدر منہمک ہوتا ہے کہ نماز کو فراموش کر دیتا ہے۔ تم زکوۃ سے بھی غافل ہو تم رمضان کے روزے بھی نہیں رکھتے اور اس کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے ہو۔”

شاہ ولی اللہ ؒنے منتشر خیال لوگوں کو فکر و نظر کی صاف اور سیدھی شاہ راہ دکھائی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہر ایک کو روشن ضمیری عطا کی ہے اور اس فطرت پر تخلیق کیا ہے کہ جس میں فرماں برداری ہے ۔ البتہ لوگ شک میں مبتلا ہو کر اپنا راستہ کھوٹا کر دیتے ہیں۔ ہر طرح کی تعریف اس خدائے پاک کے لئے ہے جس نے سب لوگوں کو ایک ایسی فطرت عطا کی ہے جس میں اسلام اور ہدایت کو قبول کرنے کی استعداد ہے۔ اور ان کی جبلت کو اس طرح بنایا کہ وہ دین حنیف کو بآسانی اختیار کر سکیں جس کی بنیاد آسانی اور سہولت پر ہے اور وہ ایک روشن اور واضح راستہ ہے۔ بایں ہمہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے گم راہی کے عمیق گڑھے میں گر کر بتلائے شقاوت ہوئے ۔

شاہ ولی اللہ ؒنے تصوف کی تعریف ان الفاظ میں کی ، تصوف قرب الہی کا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ کوشش کی جاتی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ اور اپنے تعلق سے واقف ہو اور معرفت حاصل کرے۔ اس طرح کے ذکر و اشغال سے انسان کے اندر انا کی حقیقت بیدار ہوتی ہے ۔ اور انا کی حقیقت کی بیداری سے حق ان کا شعور حاصل ہوتا ہے۔“

اولیاء اللہ ۔ انبیائے کرام کے روحانی علوم کے امین ہیں ۔ نظام کا ئنات میں اولیاء اللہ کی اہمیت کے

بارے میں شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے پیروکاروں میں ایسے اشخاص پیدا کئے ہیں جو ان کے علم کے حامل ہوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کے اسرار کو سمجھ سکیں۔ ان کو ام انبیائے کرام کے نائب ہونے کا فخر حاصل ہے اور یہ وہ جماعت ہے جس کے ایک فرد واحد کو پورے ایک ہزار بے علم عبادت کرنے والوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ ان کو آسمان کی بادشاہت میں عظیم کہا جاتا ہے اور کائنات ان کو دعائیں دیتی ہے۔ یہاں تک کہ سمندر کے اندر جو مچھلیاں رہتی ہیں وہ بھی ان کے لیے جناب اقدس سے دعا کرنے میں مشغول رہتی ہیں۔

اس دنیا سے پہلے اور بعد میں بھی عالمین ہیں۔ یہاں آنے والے ہر فرد کا نقش پہلے کے عالمین میں موجود ہے۔ اہل بصیرت اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس کو فرد کا ریکارڈ سے منسلک ہونا یا ماضی سے رشتہ قائم رہنا کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ ؒفرماتے ہیں،

عالم مثال (برزخ) کی خاصیت یہ ہے کہ بہت سی اشیا جن کو عوام غیر مادی سمجھتے ہیں اور اس کو جسم اور شکل وصورت سے منزہ سمجھتے ہیں، عالم مثال میں چلاتی پھرتی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ سب لوگ ان کو چشم بر سے نہیں دیکھ سکتے ۔”

کائنات میں ہر شے کی مقدار میں معین ہیں۔ شے کا معین ہونا تقدیر ہے۔ قدرمیں جب متعین ہو جاتی ہیں تو فردان قدروں میں زندگی گزارنے کا پابند یعنی اچھی حدود میں رہنے اور وسائل کا محتاج ہے۔ آدمی حالات و واقعات ، ان کے وقوع پذیر ہونے ، وقوع پذیری میں اپنے اختیار اور بے اختیاری پر غور کرے تو کائنات میں قادر و قدیر ہستی اللہ کے حکم کے جاری و ساری رہنے کا علم حاصل ہوتا ہے۔

شاہ ولی اللہ ؒتقدیر کے بارے میں فرماتے ہیں، یاد رکھو! نیکی کی اقسام میں سے عظیم ترین نیکی یہ ہے کہ آدمی تقدیر پر ایمان رکھتا ہو۔ اس عقیدہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو تمام کا ئنات عالم میں ایک ہی مد بر حکیم اللہ تعالیٰ کا تصرف نظر آئے ۔ جس کے دل میں یہ عقیدہ گھر کر جائے اس کا مطمح نظر صرف وہ مقامات اور درجات ہوتے ہیں جن کا تعلق اللہ تعالٰی کے قرب سے ہے ، وہ دنیا و مافیہا کو ڈھلنے والا سامیہ اور محض بے حقیقت چیز سمجھتا ہے۔ اس کے دل میں یقین بیٹھ جاتا ہے کہ لوگ بظا ہر جو کچھ اپنے اختیار اورارادہ سے کرتے ہیں، دراصل یہ ان کا اختیار نہیں ۔ اس کی مثال وہ صورت ہے جو آئینہ میں نظر آتی ہے۔ ممکن ہے ظاہر بین اس کو مستقل ہستی خیال کرے لیکن تم جانتے ہو کہ وہ کسی موجود کا عکس ہوتا ہے۔“

شاہ ولی اللہ دہلوی نے متعدد کتب تصنیف کیں۔ ان میں حجۃ اللہ البالغہ اور فیوض الحرمین “ شامل ہیں۔ اولیاء اللہ کا خاصہ توکل ہے ۔ اللہ کو دروبست خالق و مالک تسلیم کرنا اور اسی سے رجوع کرنا۔

کتاب ” فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں، میں نے رسول اللہ سے ایک روحانی سوال پوچھا، دنیا کے معاملات میں اسباب کو وسیلہ بنانے یا اسباب کو سرے سے ترک کر دینے میں کون سی چیز میرے لئے بہتر ہے۔ سوال کر چکا تو میری طرف خوش بو کی ایک لپٹ آئی جس کی وجہ سے میرا دل اسباب، اولا د اور گھر وغیرہ سے بالکل سرد ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد مجھے کشف ہوا تو میں نے طبیعت کو اسباب کی طرف مائل پایا اور محسوس کیا کہ میری طبیعت کو اسباب سے لذت ملتی ہے اور وہ اسباب کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ لیکن میری طبیعت کے خلاف میری روح کا رجحان تو کل کی طرف ہے اور میری روح اسباب کے بجائے تو کل سے لذت حاصل کرتی ہے اور اسی کی طالب ہے۔ نیز میں نے معلوم کر لیا کہ میری طبیعت اور روح میں باہم کشمکش ہے ۔ میرے لئے پسندیدہ روش یہ ہے کہ میں اپنی روح کے کہنے پر چلوں۔

شاہ ولی اللہ ؒکے اقوال زریں

تمہارا ذہن فانی چیزوں میں مستغرق ہے، اللہ کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتا۔؟

بصیرت کے بغیر عمل کا انجام ندامت ہے۔

 جس اعتقاد اور یقین کی بنیاد بصارت پر ہو، وہ مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

ظاہری صورت اور اعمال نہیں ، نیت اہم ہے۔

 اسباب وسکت راستہ کی مناسبت سے مہیا ہوتے ہیں اس لئے وہ راستہ اختیار کرو جو اللہ کو پسند ہے۔

 دانائی کا تقاضا ہے کہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق بات کرو۔

نوع آدم پر لازم ہے کہ وہ حیوانات سے ممتاز زندگی بسر کرے۔

اگر چوپائے گھاس چریں اور درندے گوشت سے غذا حاصل کریں تو ان کے جسم کی پرورش اور نشو ونما ٹھیک طور پر ہوتی ہے۔ اگر چوپائے گھاس کے بغیر گوشت کھانا شروع کر دیں اور درندے گھاس کو غذا بنا لیں تو ان کا مزاج بگڑ جائے گا اوریہ ان کی ہلاکت کا موجب ہوگا۔ اللہ جن لوگوں کو لطف و کرم سے نوازنا چاہتا ہے

انہیں اپنے دوستوں کا قرب عطا کرتا ہے۔ ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ آدمی ، آدمی کی جبلت پر چلتا ہے اور انسان احسن تقویم ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading