اسلام آباد: عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہ ختم ہونے والی لڑائی شہباز شریف کی حکومت کی طاقت کا بنیادی ذریعہ ہے۔
پی ٹی آئی کے مقید بانی چیئرمین نے نیب کرپشن ریفرنس میں اپنے ٹرائل کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت چار یا پانچ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔
ان کی رائے تھی کہ حکومت گر جائے گی جس سے ان کی اڈیالہ جیل سے رہائی کی راہ ہموار ہوگی۔ اگرچہ ایسا ہوتا ہوا دیکھنے کیلئے عمران خان کی نظریں پیپلز پارٹی پر جمی ہیں لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ کس طرح ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل کشیدگی اور پی ٹی آئی کے فوج کے ادارے پر حملے شہباز شریف کی حکومت کیلئے استحکام کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ اس نے کچ اعلیٰ آئینی بشمول صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین قومی اسمبلی اور دو گورنرز کے عہدے کے عوض شہباز حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ شہباز شریف حکومت کی جانب سے چند غیر مقبول فیصلے اور پی آئی اے کی نجکاری کرنے کے بعد شاید پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بن جائے، لیکن حکومت کی تشکیل کے موقع پر دونوں جماعتوں کے درمیان ایسی کوئی مفاہمت نہیں ہوئی تھی۔
روایتی لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں سویلین حکومت کے مضبوط ہونے کا انحصار کسی اور پہلو کی بجائے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات پر منحصر رہا ہے۔ ماضی میں ایسی حکومتیں بھی اپنی مدت مکمل نہیں کر پائیں جن کے پاس دو تہائی اکثریت تھی اور اس کی وجہ حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدہ تعلقات تھے۔
اس کے برعکس، شہباز شریف کی زیر قیادت گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت میں 13 اتحادی جماعتیں تھیں اور اس نے پرسکون انداز سے اپنی مدت مکمل کی کیونکہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
ایک طرف، ایوانِ صدر میں آصف علی زرداری کی موجودگی کو مختلف اسٹیک ہولڈرز شہباز شریف کی حکومت کیلئے ضمانت سمجھ رہے ہیں تو دوسری طرف اعلیٰ فوجی کمان نے کور کمانڈرز کانفرنس کے اپنے آخری اجلاس میں نئی حکومت کیلئے اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اسی اجلاس میں 9؍ مئی کے حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری ہونے والی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق، ’’فورم نے سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اور ملک میں سماجی اقتصادی ترقی کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کیا جس میں اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی چوری سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام، ایک دستاویزی نظام کا نفاذ اور تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کی باعزت اور محفوظ وطن واپس بھیجنے میں بھرپور مدد کی جائے گی۔
وزیر اعظم پاکستان کے عزم کے مطابق، فورم نے عہد کیا کہ سانحہ 9؍ مئی کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت یقینی طور پر قانون اور آئین کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس حوالے سے تحریف، کنفیوژن اور غلط معلومات پھیلانے کی مذموم کوششیں بالکل بے سود ہیں اور یہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے جو سیاسی مفادات کیلئے چلائی جا رہی ہے تاکہ گھناؤنی سرگرمیوں کو دھندلایا جا سکے۔
چند روز قبل عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نگران حکومت کو انتخابات میں ہیرا پھیری کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ دریں اثناء پی ٹی آئی نے واشنگٹن میں پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کو روکنے کیلئے احتجاج اور مظاہرہ بھی کیا اور ساتھ ہی پاک فوج کیخلاف مذموم مہم بھی چلائی۔
جس وقت فوجی حکام سانحہ 9؍ مئی کے بارے میں حساس ہیں اس وقت عمران خان نے سینیٹ کی نشستوں کیلیئے ایسے افراد کو نامزد کیا جن پر فوجی تنصیبات پر حملے کے الزامات ہیں۔ اس طرح پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج پُر ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہے۔
موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت پر کتنے ہی سنگین سوالات اٹھائے جائیں یا کچھ لوگ اسے کمزور ہی کیوں نہ سمجھیں لیکن سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو صورتحال شہباز شریف حکومت کیلئے موزوں ہے۔