صدائے جرس
سکون اور خوشی
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
ہالینڈ(دیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)اللہ تعالی نے آدم کی رہائش کیلئے جنت بنائی۔ جنت کا مطلب یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں غم ، خوف، ڈر، فساد اور مشقت نہ ہو…. بے سکونی، بد صورتی، گندگی، غلاظت اور کثافت نہ ہو …. جب غم اور خوف ختم ہو جائے تو خوشی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا …. غم کا مطلب کیا ہے ؟ نا خوشی ….!
اللہ تعالیٰ نے آدم کو جنت میں بھیج دیا، اللہ نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی جنت میں خوش ہو کر رہو۔ جہاں سے جو چیز چاہو، خوشی خوشی کھاؤ پیو۔ اس طرح جنت میں رہنے کیلئے دو شرائط عائد ہوئیں۔ پہلی یہ کہ ، جنت میں خوش ہو کر رہتا ہے۔ انسان جب خوش ہوتا ہے تو وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ شادی بیاہ کے مواقع پر کئی کئی دن شادی کے معمولات میں گزر جاتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ اتنے دن گزر گئے لیکن و ے لیکن وقت کا پتہ نہیں چلا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب انسان خوش ہوتا ہے تو وہ وقت کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے اور جب غمگیں اور پریشان ہوتا ہے تو وقت کی گرفت اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک دن ایک سال کے برابر لگتا ہے۔ جنت کا ماحول چونکہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں خوش ہو کر رہا جائے اس لئے وہاں وقت کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا۔ آدم پر دوسری شرط یہ عائد کی گئی کہ شجر ممنوعہ کے نزدیک نہیں جانا۔ اگر تم اس درخت کے قریب گئے تو تمہارا شمار ظالمین میں ہو گا۔ اس درخت کے قریب جانا .. حکم عدولی یا ٹائم اور اسپیس کی گرفت ہے۔ بہر حال شیطان کے بہکاوے میں آکر آدم سے جنت میں سہو ہو گیا۔ اس بھول پر آدم کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ مجھ سے حکم عدولی ہو گئی ہے۔ اللہ تعالی نے کہا ، اب تم یہاں سے اتر جاؤ ۔ آدم زمین پر آگئے .. ایک لاکھ چو میں ہزار انبیاء کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر کے اور اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خوش رہیں۔ اس زمین پر لوگ ایک دوسرے کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ، ایک دوسرے کی حق تلفی نہ ہو۔ اللہ اور اللہ کے رسول ہی انہم کی پیروی کر کے اللہ کو راضی رکھیں اسی طرح انسان راضی برضا اور خوش و خرم رہیں گے۔ رسول اللہ علیم نے فرمایا ہے کہ ”تم لوگ جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک باہم محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں وہ تدبیر نہ بتاؤں جس سےکی حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت یہ ہے کہ انہوں نے عاجزی و انکساری سے دعا کی، اللہ تعالی غفور و رحیم ہیں، اللہ تعالی کو رحم آگیا اور ان کی خطا معاف کر دی گئی …. لیکن ساتھ ہی ساتھ اس شرط کی یاد دہانی کرادی کہ اگر تم اللہ کی ہدایات پر عمل میں خوش رہو گے تو جنت میں دوبارہ داخل ہو جاؤ گے۔
تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو ….؟ آپس میں سلام کو پھیلاؤ ۔ [صحیح مسلم] حضور بنی کریم ہم نے مومنین کی کئی صفات بیان کی ہیں ان میں ایک صفت خوش اور مسکراتے رہنا بھی ہے – آپ کی یا کریم کا ارشاد ہے کہ ”سیدھے سادے رہو ، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو ، [ صحیح بخاری، مشکوۃ]
مومن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی ہے وہ اپنے بھائی سے وہ ہشاش چہرے کے ساتھ مسکراتے ہو ئے ملے۔پر نبی مکرم ہم نے فرمایا: ”تمہارا اپنے بھائی کی جانب مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے “۔ [ترندی ] بحیثیت انسان جب ہم عقل و شعور سے کام لیتے ہیں تو یہ بات ہمارے اوپر پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں یا کا ئنات میں جو کچھ موجود ہے دراصل اس کی حیثیت علم کی ہے۔ کائنات میں موجود ہر شے علم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ تعارف میں کہیں راحت، سرور اور مسرت کے خاکے نمایاں ہوتے ہیں اور کہیں پریشانی، بے قراری اور اضمحلال موجود ہوتا ہے۔ غم اور خوشی کا جہاں تک تعلق ہے، اس کی بنیاد بھی علم ہے۔ علم جب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس چیز کے نہ ہونے سے ہمار انقصان ہے تو ہمارے اوپر تکلیف کی کیفیات مرتب ہونے لگتی ہیں۔ علم جب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام یا یہ عمل یا یہ چیز ہمارے فائدے کے لیے ہے تو ہمارے اوپر جو کیفیات مرتب ہوتی ہیں ان کا نام ہم خوشی، مسرت، سکون، اطمینان قلب وغیرہ رکھتے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول الی ہم نے جتنی بھی ممنوعہ باتیں بتائیں ہیں وہ سب شجر ممنوعہ ہیں۔ جھوٹ بولنا، حقوق العباد کا خیال نہ رکھنا یا قتل کرنا برائی کے درخت ہیں جو شاخ در شاخ بڑھتے رہتے ہیں۔ یہی صورت خوشی کے درخت کی ہے۔ اس میں سے بھی شاخیں نکلتی ہیں مثلاً آپ نے ایک کنواں بنوادیا اور اس سے ہزاروں آدمی سیراب ہوتے ہیں تو وہ کنواں ایک درخت ہے اور پانی پینے والے ہزاروں آدمی اس کی شاخیں اور پھول ہیں۔ اس طرح نیکی اور برائی ایک درخت کی طرح پھلتی پھولتی ہے۔ حضور پاک لمی کریم نے فرمایا نیکی ایک درخت ہے جس سے تمہیں بھی فائدہ پہنچتا ہے اور تمہاری اولاد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
یہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ فی الواقع سکون کیا ہے اور اضطراب کیا ہے ؟….. جنت کے بارے میں ہمیں جو علم ہے وہ یہ ہے کہ جنت میں سکون ہے …. راحت ہے….. خوشی ہے….. وہاں خوف ہے نہ غم ہے۔ …. حرص ہے نہ ہوس ہے …. دشمنی ہے نہ عداوت ہے…. بخیلی ہے نہ تنگ دلی ہے….. تنگ دستی ہے نہ مفلسی ہے۔ بیماری ہے نہ عذاب ہے ..
اس دنیا میں حقیقی خوشی کیا ہے ؟ اللہ کے پسندیدہ راستے پر چلنا …. خوشی ہے اور اللہ کے پسندیدہ راستے پر نہ چلنا پریشانی اور نا خوشی ہے۔ خوش رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی حکم عدولی نہ ہو یعنی تم شجر ممنوعہ کے پاس نہ جاؤ۔ مثلاً جو ایک شجر ممنوعہ ہے۔ اس میں شاخ در شاخ برائی پھلتی پھولتی ہے اور آدمی تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جھوٹ کی بے شمار شاخیں ہیں۔ آدمی کو ایک جھوٹ کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور جھوٹ کے درخت کی سو شاخیں انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اللہ اور اللہ کے رسول ہم نے جتنی بھی ممنوعہ باتیں بتائیں ہیں وہ سب شجر ممنوعہ ہیں۔ جھوٹ بولنا، حقوق العباد کا خیال نہ رکھنا یا قتل کرنا برائی کے درخت ہیں جو شاخ در شاخ بڑھتے رہتے ہیں۔ یہی صورت خوشی کے درخت کی ہے۔ اس میں سے بھی شاخیں نکلتی ہیں مثلاً آپ نے ایک کنواں بنوادیا اور اس سے ہزاروں آدمی سیراب ہوتے ہیں تو وہ کنواں ایک درخت ہے اور پانی پینے والے ہزاروں آدمی اس کی شاخیں اور پھول ہیں۔ اس طرح نیکی اور برائی ایک درخت کی طرح پھلتی پھولتی ہے۔ حضور پاک ای بار انم نے فرمایا نیکی ایک درخت ہے جس سے تمہیں بھی فائدہ پہنچتا ہے اور تمہاری اولاد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوش کیسے رہیں ….؟ اللہ تعالی سب کو سعادت مند اولاد دے …. فرض کریں اولاد نافرمان ہو جائے تو باپ کیسے خوش ہو گا ؟ ایک شخص کے پاس محل ہے دوسرا جھونپڑی میں رہتا ہے …. برسات میں جس کی چھت ٹپکتی ہے… بتائیے! جھونپڑی والا شخص کیسے خوش رہ سکے گا…؟ ایک شخص کے پاس ستر لاکھ کی کار ہے دوسرے کے پاس سائیکل بھی نہیں تو غریب شخص کیسے خوش ہو گا ….؟
ہم ایسی چیز کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں جس میں مسرت کا پہلو نمایاں ہو… چونکہ ہم غم زدہ اور پر مسرت زندگی گزارنے کے قانون سے ناواقف ہیں اس لئے زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ہم مسرت کی تلاش میں اکثر و بیشتر غلط سمت قدم بڑھاتے رہتے ہیں اور ناواقفیت کی بناء پر اپنے لئے ایسا راستہ منتخب کر لیتے ہیں جس میں تاریکی، بے سکونی اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا …. ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے میں مسرت کی روشن قندیلیں اپنی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ وہ کون سی فضاء ہے ؟…. جس میں شبنم موتی بن جاتی ہے ….؟ وہ کون سا ماحول ہے جو معطر اور پر سکون ہے ….؟ وہ کون سی خوشبو ہے جس سے شعور روشن ہو جاتا ہے ؟ منفی سوچ اتنی زیادہ عام کیوں ہے کہ آدمی ان چیزوں سے خوش نہیں ہوتا جو اسے میسر ہیں۔ ان خواہشات کے پیچھے کیوں سر گرداں ہے جن کے حصول میں وہ اعتدال کی زندگی سے رو گردانی پر مجبور ہے۔ آیئے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں ! …. اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ سب اللہ اور اس کے پیغمبروں کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہے۔
میں نے قلندر بابا اولیاء سے ایک روز سوال کیا کہ سب کے ساتھ بشری تقاضے ہیں۔ کمزوریاں، مجبوریاں ہیں۔ بتائیے کہ پھر ہر شخص خوش کیسے رہ سکتا ہے ….؟ انہوں نے مجھے تین باتیں بتائیں کہ ان تینوں کو اختیار کر کے آدمی ہمیشہ خوش رہ سکتا ہے ….؟
قلندر بابا اولیاء نے فرمایا: پہلی بات یہ ہے کہ جو تمہارے پاس ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ جو تمہارے پاس نہیں ہے اس کا شکوہ نہ کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ جد وجہد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ میں کسی کی کوشش رائیگاں نہیں کرتا۔ ان دونوں باتوں کو ملائیں تو Equation یہ بنتی ہے کہ بالفرض آپ کے پاس موٹر سائے یہ بنتی ہے کہ بالفرض آپ کے پاس موٹر سائیکل ہے، کار نہیں ہے۔ آپ موٹر سائیکل پر شکر ادا کریں اور کار کے لئے جد وجہد کریں …. اس کا مطلب یہ ہوا جو چیز پاس ہے اس کا شکر ادا کرو، جو نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کرو بلکہ اس کیلئے جد وجہد اور کوشش کرو۔“ پھر فرمایا: « تیسری بات یہ ہے کہ کسی سے توقع قائم نہ کرو۔“
مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں :
بیرون ز تو نیست ہر چه در عالم ہست در خود بہ طلب ہر آنچہ خواہی کہ توئی
یہ کائنات باہر نہیں ہے ، اس کائنات میں جو کچھ ہے ، تمہارے اندر بھی موجود ہے۔ اپنے اندر دیکھو ، وہ سب کچھ جو تم چاہتے ہیں، پہلے سے تمہارے اندر موجود ہے “۔ سکون اور خوشی کوئی خارجی شے نہیں ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔ اس اندرونی کیفیت سے جب ہم آشنا ہو جاتے ہیں، سکون واطمینان کی بارش ہونے لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرز فکر سے آشنا ہو کر مصیبتوں، پریشانیوں اور عذاب ناک زندگی سے رستگاری حاصل کر کے حقیقی مسرت اور شادمانی سے واقف ہو جاتا ہے جو اللہ کے فرمانبردار بندوں کا ورثہ ہے۔ بے قراری اور اضطراب سے نجات حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ پیغمبرانہ تعلیمات پر صدق ول سے عمل کیا جائے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2020