صدائے جرس
اولیاء کی طرز فکر
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت کو عام کرنے میں صوفیاء حضرات کا کردار بہت بڑا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب چنگیز خانی طوفان نے مسلمان سلطنت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا، شہر ویران ہو گئے تھے، لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے مینار بنا دیئے گئے تھے ، بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، علم و حکمت اور ہر قسم کے علوم کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا تھا، علماء فضلاء اور دانشور مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس ہو گئے تھے۔ اس وقت اس سرکش طوفان کا رخ انہی لوگوں (گروہ صوفیاء) نے موڑ دیا تھا۔ طوفانوں کا مقابلہ کر کے ان لوگوں نے اسلام دشمن لوگوں میں سے چند لوگوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ شمع اسلام کے لئے پروانہ بن گئے تھے۔ انہی صوفیاء کے گروہ کے ایک آدمی نے ظلم و جبر ، بے حیائی، قتل و غارتگری، بدنیتی کی فضاء کو بدل دیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ایک بزرگ جو سلسلہ عالیہ قادریہ کے درخشاں ستارے تھے ، ہلا کو خان کے بیٹے تگو دار خان کو دعوت اسلام دینے کیلئے تشریف لے گئے، تگودار خان شکار سے واپس آرہا تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک درویش کو دیکھ کر اس نے ازراہ تمسخر پوچھا : ”اے درویش تمہاری داڑھی کے بال اچھے ہیں یا میرے کتے کی دم ؟“
اس بیہودہ طنزیہ اور ذلت آمیز سوال پر درویش برہم نہیں ہوئے، شگفتہ چہرے کے ساتھ نہایت تحمل سے فرمایا: اگر میں اپنی جان نثاری اور وفاداری سے اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرلوں تو میری داڑھی کے بال اچھے ہیں ورنہ
آپ کے کتے کی دم اچھی ہے جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور آپ کے لئے شکار کی خدمت انجام دیتا ہے۔“ تگو دار خان اس غیر متوقع اور انا کی گرفت سے آزاد جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے درویش کو اپنا مہمان بنا لیا۔ درویش کے حلم و بردباری اور اخلاق سے اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تنگو دار خان نے اپنا نام احمد رکھا۔ ہلاکو خان کا چچازاد بھائی بھی شیخ شمس الدین باخوری کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا۔ قسطنطنیہ کی فتخ تاریخ اسلام کا ایک لافانی باب ہے۔ حضرت شمس الدین سلطان محمد کے مر شد کریم تھے۔ انہی
کی ترغیب اور بشارت سے سلطان محمد نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تاریخ کے صفحات جتنے زیادہ پلیئے اہل تصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہے جو دین اسلام کو نہ صرف پھیلانے میں نظر آتا ہے بلکہ اللہ نے ان فقراء کو کامیابی اور کامرانی سے نوازا ہے۔ حضرت معین الدین چشتی ، خواجہ غریب نواز بھی اسی کارواں کے ایک ممتاز فرد ہیں جن کے دم قدم سے ہندوستان میں اسلام پھیلا۔ حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز نے روحانی قافلہ کے ایک ممتاز سردار ابوالحسن علی ہجویری کے مزار پر انوار پر 40 دن عبادت کی۔ حضرت علی ہجویری نے حضرت سلطان الہند پر لطف و عنایت،اسرار در موز کی جو بارش کی اس کا علم تو حضرت غریب نواز ہی کو ہو سکتا ہے لیکن جب آپ آستانہ عالیہ سے رخصت ہوئے تو بے ساختہ فرمایا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر خدا۔۔۔۔ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہنما
حضرت علی ہجویریؒ ایک بلند پایہ عالم، بالغ نظر محقق تھے۔ آپ کا باطن نور عرفاں سے جگمگ کرتا ہے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ حضرت داتا گنج بخش نے اپنی زندگی میں وعظ و نصیحت، تحریروں اور کتابوں سے اسلام کی بھر پور خدمت سر انجام دی اور یہ خدمت نو سو پچاس سال سے جاری ہے۔ 950 سے زیادہ سال گزر گئے آپ کا تصرف لوگوں کے قلب پر نقش ہے۔ نقش ہو تا رہا اور نقش ہوتا رہے گا۔ نوع انسانی پر عموماً اور امت مسلمہ پر خصوصاً حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش گا مسلسل فیض عام ہے۔ بے شمار لوگوں نے حضرت داتا گنج بخش سے روحانی فیض حاصل کر کے اکتساب علم کیا۔ الحمد للہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کو بھی یہ سعادت ہے کہ یہ سلسلہ بھی حضرت داتا گنج بخش کے فیض سے مالا مال ہے۔ ہم کھلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ دور مادیت کا دور ہے، مادی لذتوں اور جاہ و منصب کے حصول کے لئے انسان مادر پدر آزاد ہو کر اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے۔ دل، دنیا کی طمع، حرص، بغض و حسد سے سیاہ ہو گیا ہے۔ انسان انسان کا دشمن بن گیا ہے۔ ترقی کی تعریف اب یہ ہے :
کہ کون آدمی کون سا ایسا ہتھیار بنا سکتا ہے جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ختم کر دے۔“ ترقی کی چکا چوند نے آدمی کو عارضی آرام و آسائش تو مہیا کر دی ہے لیکن اس ترقی کے پیچھے نوع انسانی کو ایسی بیماریوں نے گھیر لیا ہے جس کا علاج بھی ہمارے پاس نہیں ہے اور اگر علاج ہے بھی تو وہ ایک مخصوص طبقہ (سرمایہ داروں) کے لئے ہے۔ اس لئے کہ کوئی غریب آدمی دل کی پیوند کاری پر چھ سات لاکھ روپے خرچ نہیں کر سکتا۔ اعلیٰ ہذالقیاس۔ آرام و آسائش کی مادی دوڑ نے نوع انسانی کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اس آسائش و آرام کی دنیا میں انسان محروم زندگی بسر کرے بلکہ یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ اگر ہم اولیاء اللہ کی طرز فکر پر قائم رہ کر زندگی گزاریں تو دنیا کا ہر کام ہر آسائش ہمارے لئے نعمت بن جائے گی۔ زندگی کا مقصد وہ چیز ہے جو انسان کے ساتھ ہمہ وقت رہے۔ مادی دنیا نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا اس لئے مادی دنیا کو بھر پور استعمال کر ناتو چاہئے لیکن اس کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دینا چاہئے۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری اپنی کتاب ”کشف المحجوب“ میں لکھتے ہیں : ” فقیر تہی دست کو نہیں کہتے جس کے پاس متاع اور زاد راہ نہ ہو ۔ فقیر وہ ہے جس کا دل خواہشات سے مغلوب نہ ہو۔ فقیر کی صفت یہ ہے کہ کچھ نہ ہو تو شکوہ نہ کرے اور جب موجود ہو تو خوب خرچ کرے۔ جب کچھ نہ ہو تو صبر کرے اور جب کچھ ہو تو دوسروں کو خود سے زیادہ مستحق سمجھ کر ان پر خرچ کرے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2017