صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ میرا نام کب اور کیوں رکھا گیا البتہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر نام کے نہیں ہے ، نام دراصل کسی شئے کی شناخت کے لیے ضروری ہے، جس طرح دنیا میں لاکھوں کروڑوں چیزوں کے نام ہیں اور یہ نام ان چیزوں کی شناخت کراتے ہیں اسی طرح میرا نام بھی رکھا گیا۔ لاکھوں کروڑوں سال سے میں اسی نام سے جانا پہچانا جاتا ہوں۔ نام جس طرح انسانوں کی شناخت کے لیے مجبوری ہے اسی طرح پرندوں، چرندوں، درندوں، حشرات الارض اور درختوں کی شناخت کے لیے بھی مجبوری ہے۔ ایک جگہ بادام، انار، امرود، ناشپاتی، چیکو، سنگترہ، کیلا، آم اور پیچی پڑے ہوئے ہوں اور الگ الگ نام نہ ہوں تو ہم بادام کو بادام نہیں کہتے ۔ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ جس طرح کبوتر کے انڈے سے کبوتر اور مرغی کے انڈے سے مرضی پیدا ہوتی ہے، بادام کے درخت پر بھی بادام لگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بادام کے درخت سے آم اور آم کے درخت پر امرود لگے ہوں۔ چوپائے اور دو پیروں پر چلنے والے افراد میں بھی نسلی بقا تسلسل سے قائم ہے۔ دو پاؤں پر چلنے
والے آدمی کے بچے دو ہی پیروں پر چلتے ہیں اور چار پیروں پر چلنے والے چوپائے کے بچے چار پیروں پر چلتے ہیں۔ میری کہانی کا آغاز یہ ہے کہ میں جنگل میں بے شمار درختوں کے ساتھ پیدا ہوا اور جوان ہوا۔ جوان ہونے کے بعد میری نسل شروع ہوئی۔ آدمی کی نسل تو ایک ایک کر کے پھیلتی ہے۔ مگر میری نسل کے بیچ ایک وقت میں ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ آدمی کے اندر ریڑھ کی ہڈی دراصل ایک تنا ہے جس پر آدمی کا سراپا قائم ہے اور درخت میں یہی ریڑھ کی ہڈی درخت کا تنا بن جاتی ہے۔ جوانی میں جب تناور ہوا تو سینکڑوں شاخوں پر لاکھوں پتے نکل آئے اور میری شاخوں پر پھل آگئے۔ پھل لگ گئے تو پرندوں کے لئے غذا کا بندوبست ہو گیا۔ نہیں معلوم کہاں کہاں سے پرندے آتے اور میرے دستر خوان پر سے خوب سیر ہو کر کھاتے اور اُڑ جاتے ہیں۔ ایک من موہنی چھوٹی چڑیا آئی ادھر اُدھر پھر کی، چوں چوں بولی اور شاخ پر بیٹھ گئی۔ اس نے خوب سیر ہو کر میرا پھل ” گولڑی“ بیج سمیت کھایا اور پھر سے اڑ گئی۔ فضا میں میلوں میں اڑتی رہی۔ پھر اسے رفع حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ چڑیا کے پیٹ سے میرا ایک بیچ زمین پر گرا تو شروع میں میرے ننھے سے بچ نے Sperm کا کام کیا۔ زمین نے اسے اپنی گود میں سمیٹ لیا۔ زمین کی گود میں خشخاس سے چھوٹے بیج میں حرارت و برودت سے
میرے اندر ایک نئی زندگی دوڑ گئی اور بالکل اس طرح جس طرح انسانوں میں نسلی سلسلے کا Process ہے۔ جس طرح آدمی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے میں نے بھی زمین کی کوکھ سے جنم لیا ہے لیکن فرق یہ تھا کہ جیسے آدمی کے بچے کو اس کی ماں سردی گرمی سے بچاؤ کیلئے کپڑے پہناتی ہے میرے پاس نہیں تھے۔ بھوک پیاس رفع کرنے کیلئے زمین کے سینے میں دودھ نہیں تھا۔ مجھے بھوک پیاس کا تقاضا پورا کرنے اور سردی گرمی سے حفاظت کے لیے خود ہی انتظام کرنا تھا۔ میں نے یہ بات جان لی تھی کہ درخت کی ماں صرف بیج پیدا کرنے تک ماں ہوتی ہے۔ پیدائش کے مراحل سے گزر کر درخت کو خود اپنے ایک پیر پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ میں نے مردانہ وار نہیں درختانہ وار بارش، آندھی، طوفان کا مقابلہ کیا اور ایک درخت بن گیا۔ جس کے نیچے ایک دو دس ہیں نہیں پچاس آدمی دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے میرے سائے میں ٹھہرتے تھے، بیٹھتے تھے اور آرام کرتے تھے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میری چھتری کے نیچے برا میں آکر ٹھہریں دوکھا کے روپ میں بھی اور عجیب اتفاق ہے کہ کبھی دلہن کے روپ میں۔ میں خوش تھا کہ میں اس لیے افضل ہوں کہ میں انسانوں کو سایہ فراہم کرتا ہوں۔ کوئی درخت کسی آدمی کے سائے میں نہیں رہتا۔
میں نے ابھی جوانی کی پوری بہاریں بھی نہ دیکھی تھیں کہ ایک مکروہ شکل آدمی آیا اور بغیر کسی قصور کے پے در پے کلہاڑی کے وار کیسے میں بہت چینا، بہت شور مچایا۔ میں نے کہا: “اے میرے دوست آدمی! میں نے آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ کر کے خود کو اس قابل بنایا ہے کہ تو اور تیری اولاد، میرے سائے میں رہے اور تو میرے خون، (جسے تو پانی کے برابر بھی نہیں سمجھتا) سے بنے پھل کھائے اور ان کے رس سے اپنی توانائی میں اضافہ کرے۔ “ لیکن اس ظالم آدمی نے میری کسی التجا پر کان نہیں دھرا، میری کوئی بات نہیں سنی۔ وہ میرے وجود کو تیز دھار کلہاڑی سے زخمی کر تا رہا۔ یہاں تک کہ میں روتا بلکتاز مین پر گر گیا۔ آدم زاد نے اس پر بھی بس نہیں کیا میری بڑی بڑی شاخوں کو جو میرے جسم میں ہڈیوں کے قائم مقام تھیں اس بے رحم آدمی نے الگ الگ کر کے چولہے میں جھونک دیا اور مجھے خاکستر کر دیا۔
میں ایک درخت ہوں۔ میرا مسکن جنگل ہے۔ جہاں درندے بھی رہتے ہیں۔ میں نے نہیں دیکھا کہ ایک شیر نے دوسرے شیر کو پھاڑ کھایا ہو ، کسی ہاتھی نے دوسرے ہاتھی کو قتل کر دیا ہو۔ یہ بد نمائی آدم زاد کے ہی حصے میں آئی ہے کہ وہ اپنے بھائی آدم زاد کو قتل کر دیتا ہے۔ جب آدم زاد خود اپنا قاتل بن گیا تو اس سے شکوہ شکایت کوئی کیا کرے اور کیوں کرے….؟
میرا کام خدمت ہے، محبت ہے، میرے بچے درخت اس وصف کو قائم رکھیں گے۔ اے اشرف المخلوقات آدمی! یادر کھ! محبت زندگی ہے، انتقام عقوبت ہے۔ ظلم ہلاکت ہے، حلم عافیت ہے، قتل پاپ اور بزدلی ہے۔ سر تسلیم خم کرنا عبادت ہے۔ ایثار و عاجزی عظمت ہے۔ اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا رحمت ہے۔ اور قانون قدرت سے انحراف بغاوت ہے۔
فقط آدمیوں کا جاں نثار دوست ایک درخت
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2016