°عبد اللہ نابینا اور خلیفہ ہارون الرشید کا قصہ°
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) دوسری شب کو شہرزاد نے بدستور کہانی شروع کی ایک روز خلیفہ ہارون الرشید کی طبیعت اداس تھی۔ اور وہ خود بخود گہرے خیالات میں الجھا ہوا تھا کہ خواجہ سرائے نے جعفر کے حاضر ہونے کی اطلاع کی خلیفہ نے سر کے اشارے سے اجازت دیدی جعفر اندر آیا اور معمول کے مطابق سلام کیا لیکن ہارون الرشید نے صرف گردن اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور پھر اپنے خیالات میں غرق ہو گیا جعفر نے عرض کیا کہ آج نصیب اعداء طبیعت کیسی ہے۔ خلیفہ نے ایک آہ سرد بھر کر کہا کہ جعفر ! بعض اوقات میرے خیالات کی رو ایسے دور دراز قصوں تک چلی جاتی ہے کہ پریشان ہو جاتا ہوں ۔ یہ تخت خلافت امارت سب ہیچ معلوم ہونے لگتا ہے ۔ اور میں دل برداشتہ ہو کر یہ چاہنے لگتا ہوں کہ کہیں ایسی جگہ نکل جاؤں جہاں روح کو سکون حاصل ہو جاوے۔ گو مجھ کو خود بھی یہ نہیں علم ہوتا کہ سکون کس چیز سے ملیگا۔ جعفر نے کہا ۔ یہ ہماری فطرت کا تقاضا ہے کہ ہمیں بعض اوقات لامعلوم کی تلاش ہوا کرتی ہے۔ لیکن میں آج فلسفہ کی گفتگو کے بجائے یہ یاد دہانی کرانے آیا ہوں ۔ کہ آج آپ نے لباس تبدیل کر کے مضافات شہر کی حالت دیکھنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ میرے خیال میں اگر آپ تشریف لے چلیں تو طبیعت بہل جائے گی۔ خلیفہ نے کہا ٹھیک ہے چلو۔ چنانچہ اسی وقت مسرور خواجہ سرا کو طلب کر کے خلیفہ نے لباس تبدیل کیا اور تینوں چور راستہ سے نکل کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے پھرتے پھرتے انہیں راستہ میں ایک گدا گر ملا جو نابینا تھا۔ اس نے خدا کے نام پر سوال کیا۔ خلیفہ نے ایک دینار دے دیا۔ گدا گر نے دامن پکڑ کر کہا کہ اب میرے منہ پر ایک چپت بھی مارتے جاؤ۔ خلیفہ نے تعجب سے پوچھا کیوں ۔ اندھا فقیر کہنے لگا۔ بابا کوئی تو وجہ ضرور ہوگی ۔ اگر تمہیں خیرات دینی ہے تو چپت بھی مار دو۔ ورنہ یہ اپنا د ینار واپس لے لو۔ بادشاہ نے ایک ہلکا سا چپت مار دیا۔ اور مسرور سے کہا۔ صبح کو اسے دربار میں حاضر کرنا۔ مسرور نے فقیر سے اس کا پتہ دریافت کر لیا۔ اس کے بعد آگے روانہ ہوئے تھوڑی دور چل کر دیکھا کہ ایک نوجوان گھوڑی سوار ہے اور اس کو بے تحاشا میدان میں دوڑا رہا ہے اور بے ضرورت مارتا بھی جا رہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اے
بد نصیب اپنی بداعمالیوں کی سزا دیکھ ۔ خلیفہ نے جعفر سے کہا کہ اس کو بھی کل دربار میں حاضر کرو اس زیادتی کی وجہ دریافت کی جائے گی۔ جعفر نے اس نوجوان کو اشارے سے ٹھہرایا اور بتایا کہ تمہیں کل خلیفہ نے دربار میں طلب کیا ہے۔ اگر تعمیل حکم سے گریز کیا تو نتیجہ کے ذمہ دار تم ہو گے۔ پھر وہاں سے دوسری طرف روانہ ہوئے اور گھومتے ہوئے ایک عالیشان مکان کے سامنے کھڑے ہو کر خلیفہ نے کہا کہ دریافت کرو کہ کس کا مکان ہے اور مالک کے متعلق اہل محلہ کی کیا رائے ہے۔ مسرور نے چند لوگوں سے حالات معلوم کر کے عرض کیا کہ یہ مکان حسن خبال کا ہے۔ چند سال پہلے وہ بہت غریب آدمی تھا اور رسیاں بانٹ کر اپنی گزر اوقات کرتا تھا۔ اسکے بعد دفعتاً مالدار ہو گیا اور یہ محل تعمیر کرایا۔ ابتک اس کے یہاں رسی بنانے کا کام ہوتا ہے۔ اہل محلہ کے ساتھ صلہ رحمی کے ساتھ پیش آتا ہے ان کے دکھ درد کا شریک ہے غریب بیواؤں کی امداد کرتا ہے۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ صبح کو اسے بھی دربارمیں حاضر کیا جائے۔ اب رات کافی جا چکی تھی اس لئے سبب محل سرائے کو واپس ہوئے، خلیفہ نے بھی آرام فرمایا
صبح کو حسب معمول ہارون الرشید کی طبیعت بشاش تھی۔ امور ملکی و مالی سے فراغت کے بعد جب صرف خاص آدمی رہ گئے تو اس نے رات والے آدمیوں کو طلب کیا جعفر نے تینوں کو بلا کر بٹھارکھا تھا چنانچہ خلیفہ کے سامنے پیش کر دیئے گئے۔ سب سے پہلے خلیفہ نے اندھے فقیر سے پوچھا کہ تم خیرات لیکر چپت مارنے پر کیوں اصرار کرتے ہو۔ حالات صحیح بیان کرنا ۔ ورنہ تمہیں قتل کرادوں گا ۔ اندھا آگے بڑھا اور دعائے درازی اقبال دے کر کہنے لگا ۔
اندھے فقیر کے حالات
حضور میرا نام عبد اللہ ہے اور میں یہیں بغداد کا رہنے والا ہوں باپ کے مرنے کے بعد بری صحبت میں پڑکرمیں نے اپنا کل اثاثہ برباد کر دیا۔ جب تنگی زیادہ ہوئی تو میں نے اپنی بیوی کے مشورہ سے دو اونٹ خرید کر بار برداری کا کام شروع کر دیا۔ خدا نے بھی کرم فرمایا اور مجھے اس میں معقول منافع ہونے لگا۔ یہاں تک کہ میرے پاس سو اونٹ ہو گئے اور میں کافی آسودگی سے زندگی بسر کرنے لگا خوب آرام سے زندگی گزرتی رہی ۔
ایک روز میں کسی سوداگر کا مال بصرے پہنچا کر بغداد واپس آرہا تھا۔ گرمی کی شدت سے پریشان ہو کر ایک درخت کے نیچے دم لینے کو لیٹ گیا اور اونٹوں کو بھی رسی سے باندھ کر اپنے کھانے کے لیے چھوڑ دیا ۔ مجھے بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ ایک درویش ادھر سے گذرا ۔ اور مجھے بیٹھا ہوا دیکھ کر خود بھی میرے پاس چلا آیا ۔ سلام و دعا کے بعد ہم باتیں کرنے لگے پھر کھانا کھایا۔ اسی اثنا میں درویش کہنے لگا کہ یہاں سے قریب ہی ایک اتنا بڑا خزانہ ہے کہ اگر تم اپنے سارے اونٹ بار کر لو پھر بھی اس میں کوئی کمی نظر نہ آئے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مجھے خزانہ تک لے چلیں تو میں بھی
زر و جواہر بھر لوں اور آپ کو بھی ایک اونٹ دید و نگا۔ درویش نے کہا کہ اگر تم آدھے اونٹ مجھے دیدو تو میں بیشک تمہیں وہ خزانہ بتا سکتا ہوں۔ میں نے اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ اس وقت انتی اونٹ تیرے ساتھ ہیں چالیس اونٹوں پر لدا ہوا سیم و زر تیزی سات پشت تک کو کافی ہوگا۔ یہ سوچ کر میں نے اُسے آدھے اونٹ دینے منظور کئے۔ اس درویش نے کہا۔ اپنے اونٹ جمع کر لو۔ اور میرے ساتھ چلو میں نے اپنے اونٹوں کی مہار پکڑی اور درویش کے ساتھ ہو لیا۔
آگے آگے درویش اور اس کے پیچھے اونٹوں کو لئے ہوئے میں ایک درے کے قریب آئے۔ یہ بہت تنگ راستہ تھا اور ایک ایک کی قطار میں نکل سکتے تھے۔ اسمیں ہمیں کافی وقت لگا۔ درے سے نکل کر ہمیں ایک میدان ملا۔ جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا۔ یہاں پہونچ کر درویش نے کہا کہ اپنے اونٹوں کو بٹھا دو میں نے اونٹ بٹھا دیئے ۔ اتنے میں درویش نے چند لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی ۔ اور کچھ منتر پڑھنا شروع کیا۔ دفعتا کچھ زلزے کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور زمین پھٹ کر ایک خوشنما دروازہ نمودار ہو گیا ۔ اس کے بعد میں اور درویش اندر آگئے تو دیکھا اسمیں لا تعداد زرو جواہر اور سونے کے انبار تھے۔ میں نے مال اونٹوں پر لاد نا شروع کیا اور جتنا زیادہ سے زیادہ اونٹ بوجھ اٹھا سکتا تھا میں نے بھر لیا ۔ درویش نے وہیں سے ایک ڈبیہ اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لی پھر ہم باہر نکل آئے ۔ درویش نے کچھ پڑھا اور دروازہ اسی طرح غائب ہو کر زمین ہموار ہوگئی ۔ ہم اونٹوں کو لیکر چلے اور درے سے نکل کر شاہراہ پر آ گئے۔ میں نے چالیس اونٹ درویش کے حوالے گئے اور چالیس اونٹ خود لیکر جلد یا ۔ چند قدم چل کر میرے دل میں لالچ آیا کہ چالیس اونٹ خزانہ سے بھرے ہوئے یہ درویش کیا کریگا۔ چنانچہ واپس لوٹ کر میں نے اس سے کہا کہ آپ اتنے اونٹوں کو کہاں لئے لئے پھریں گے۔ اس میں سے کچھ اونٹ مجھے اور دید کیجئے۔ درویش نے دس اونٹ میرے حوالے کر دیئے اور باقی تیسں اونٹ لیکر چلنے لگا۔ میری طبیعت میں پھر لایچ پیدا ہوا۔ میں نے اس سے کہا آپ درویش ہیں ۔ آپ کو سیم وزر کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ کچھ اونٹ اور چھوڑ دیجئے ۔ اس نے دس اونٹ پھر مجھے چھوڑ دیئے ۔ غرض میرا لالچ بڑھتا رہا۔ میں درویش سے اونٹ مانگتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے سب اونٹ میرے حوالے کر دیئے اور خالی ہاتھ جانے لگا۔ تو مجھے واپس آتے ہی خیال آیا اس نے بغیر کسی پس وپیش کے سارے اونٹ میرے حوالے کر دیئے کوئی حیل وحجت نہیں کی جو اب اس کے پاس ایک چاندی کی ڈبیہ رہ گئی ہے ضرور اس میں کوئی اب قیمتی الماس یا مردوارید ہو گا جو اس سارے خزانے سے بھی زیادہ قیمتی ہوگا۔ اس لئے وہ بھی مجھے لے لینا چاہیے۔ چنانچہ میں نے درویش سے ڈبیہ مانگ لی۔ وہ کہنے لگا کہ بابا تم نے سارا زر و جواہر لے لیا۔ میں نے انکار نہیں کیا۔ صرف ایک ڈبیہ میرے پاس رہ گئی ہے۔ لیکن حرص کے بس میں ہو کر تم وہ بھی مانگتے ہو۔ یہ اچھا نہیں لیکن مجھ پر لالچ کا بھوت سوار تھا۔ میں نے کہا کہ ڈبیہ میں ضرور لوں گا ۔ اگر آپ نہیں دیں گے تو مجھے سختی کرنی پڑے گی
درویش نے وہ ڈبیہ نکال کر میرے حوالے کی اور کہنے لگا کہ اس میں ایک سرمہ ہے اگر داہنی آنکھ میں لگاؤ گے تو روئے زمین کے خزانے نظر آنے لگیں گے اور اگر دوسری آنکھ میں بھی لگایا تو اندھے ہو جاؤ گے ۔ میں نے کہا اچھا تم پہلے میری دائیں آنکھ میں سرمہ لگا کر دکھاؤ۔ درویش نے ڈبیہ کھولی اور ایک سلائی سرے کی میری دائیں آنکھ میں لگادی ۔ اس وقت مجھے کل خزانے نظر آنے لگے میری خوشی کا یہ عالم تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا میرے دل میں خیال پیدا ہوا بائیں آنکھ میں سرمہ لگانے سے اور بھی عجائبات نظر آتے ہوں گے۔ اور یہ درویش مجھ سے جھوٹ بولتا ہے میں نے اس سے کہا کہ تم میری بائیں آنکھ میں بھی سرمہ لگا دو ۔ درویش نے کہا تم دیوانے ہو گئے ہو جو جان بوجھ کر اندھے ہونا چاہتے ہو لیکن میں حرص کے ہاتھوں مجبور تھا اس سے کہنے لگا کہ تمہیں میں کہتا ہوں کر دو۔ درویش نے بہت منع کیا لیکن میں نہ مانا۔ آخر اس نے سلائی بھری اور کہنے لگا کہ دیکھو مجھ پر کوئی الزام نہیں میں نے کہا بالکل نہیں۔ چنانچہ درویش نے وہ سلائی میری بات بائیں آنکھ میں لگائی اور میں اسی وقت اندھا ہو گیا ۔ جس وقت میری بینائی جاتی رہی میں دہاڑیں مار کر رونے لگا اور درویش کے آگے ہاتھ جوڑے کہ تم یہ سرمہ اور سارا مال وزرے لو لیکن کسی طرح میری آنکھیں اچھی کرو۔ تھوڑی دیر تک وہ خاموش رہا۔ اس کے بعد کہنے لگا کہ بابا تمہاری بینائی واپس لانا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں نے تمہیں منع کیا۔ لیکن تم نہیں مانے۔ اب جاؤ اور زندگی بھر دھکے کھاتے پھر و. اب تمہارا صرف یہ کام ہے کہ بھیک مانگ لو اور پیٹ پھر لو۔ اس کے بعد اس نے ڈبیہ میرے ہاتھ سے لیا۔ اور اونٹوں کی مہار تھام کر چلدیا۔ میں کئی دن پہاڑوں میں دھکے کھاتا رہا۔ پھر خدا جانے کس طرح رہ گذر پر آیا ۔ وہاں سے کوئی قافلہ گذر رہا۔ تھا وہ مجھے اپنے ساتھ لے آیا ۔ اس روزے میں بھیک مانگتا پھرتا ہوں۔ اگر کوئی مجھے خدا کے نام پر کچھ دیتا ہے تو اس سے کہتا ہوں کہ میرے ایک تھپڑ یا جوتا بھی مار دے اور اس طرح میں اپنے کو
اس لالچ کی سزا دیتا ہوں جس کے نتیجے میں اس حال کو پہونچا ۔ خلیفہ نے اس کا قصہ سن کر کہا کہ بے شک تمہاری داستان عجیب ہے خیر آئندہ تم بھیک نہ مانگا کرو۔ بیت المال سے تم کو اتنا مل جایا کرے گا کہ تمہاری گذر ہو جائے ۔ بابا عبداللہ خلیفہ کا شکریہ ادا کر کے ادب سے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔
اس کے بعد خلیفہ نے گھوڑے والے کو بلایا ۔ اور پوچھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے تم ہمیشہ گھوڑی پر ظالمانہ سلوک کرتے ہو ۔ اس قسم کے فقرے استعمال کرتے ہو گویا وہ خری فہم اس کی وجوہ بیان کرو نوجوان سرجھکا کر خاموش ہو گیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا خلیفہ نے دوبارہ سوال کیا۔ اور فرمایا کہ اگر تم نے اب بھی جواب نہیں دیا تو اپنی گستاخی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا۔ سوار نے سراٹھا کر چاروں طرف دیکھا اور ہاتھ باندھ کر بولا کہ حضور میری رسوائی کی داستان سر عام ہی سننا چاہتے ہیں تو خیر جیسا حکم ہوگا تعمیل کروں گا۔
لقمان سوار کا حال
نوجوان نے کہنا شروع کیا۔ کہ میرا نام لقمان ہے اور میں ایک کھاتے پیتے گھر کا لڑکا ہوں میرے والد کا بہت بڑا کاروبار تھا اپنی حیثیت اور ہمت کے مطابق انھوں نے میری تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کر دیا تھا جب میں تعلیم سے فارغ ہوا۔ اور والد شادی کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک وبائی بیماری میں میری والدہ اور وہ خود انتقال فرما گئے اور میں گھر میں تنہا رہ گیا۔ بہت روز تک مجھے بڑی وحشت رہی لیکن آخر کار صبر آ گیا اور میں اپنے کاروبار کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ سال ڈیڑھ سال کے بعد مجھے اپنی تنہائی اور گھر کے خالی پن کا احساس ہوا۔ اور اس میں اتنی شدت ہوئی کہ مجبورا میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ۔ ملنے جلنے والوں کے ذریعہ کوشش کراتا رہا۔ اور خود بھی تلاش کرتا رہا۔ انہی دنوں بغداد میں ایک گھر کہیں باہر سے آکر آباد ہوا تھا۔ اس میں ایک نہایت حسین لڑکی تھی جو مجھے بہت پسند آئی میں نے پیغام رشتہ بھیج دیا۔ دو چار پھیروں کے بعد میرا نکاح ہو گیا۔ میں خوش تھا کہ امید سے بڑھ کر خو برو حسین عورت مجھے مل گئی۔ شروع شروع میں تو میں نے کچھ محسوس نہیں کیا لیکن چند روز بعد مجھے معلوم ہوا کہ میری بیوی ” امین” کھانا نہیں کھاتی صرف کھانا کھانے کا نام کرتی ہے۔ میں نے غور کر کے دیکھا کہ اس کی دن بھر کی غذا اتنی ہوتی ہے جتنا بمشکل چار سال کا بچہ ایک وقت میں کھا لیتا ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا۔ اس کی وجہ معلوم کرنی چاہئیے ۔ میں کئی روز تک اسی خیال فکر میں رہا کہ ایک روز سوتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میری بیوی اٹھ کر باہر جارہی ہے میں نے اس کے نکلنے کا انتظار کیا جوں ہی وہ کپڑے پہن کر باہر آئی میں بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا یہاںتک ہے کہ ہم دونوں آگے پیچھے قبرستان میں آپہنچے۔ میں حیران تھا کہ رات کو تنہا یہ یہاں کیا کرنے آئی بہر حال کل واقعات دیکھنے کیلئے میں ایک بڑے سے درخت کی آڑ میں کھڑا ہو گیا اور امین آگے چلتی رہی ۔ تھوڑے فاصلہ پر ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی اور وہاں ایک دیو صفت آدمی بیٹھا تھا جس کو میں اپنے اندازے کے مطابق غول بیابانی سمجھا۔ وہ اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور دونوں آپس میں کچھ گفتگو کرنے لگے۔ فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں ان کی گفتگو نہیں سمجھ سکا۔ لیکن نظر سب کچھ آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد امین اس دیو ہیکل کی گود میں جابیٹھی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئی آپ اندازہ فرما سکتے ہیں۔ قریب تھا کہ میں اپنی طاقت ضبط کھو بیٹھوں لیکن میں نے بڑی مشکل سے سکون حاصل کیا اور سارے واقعات کے لئے تیار ہو گیا ۔ وہ غول بیابانی کچھ دیر تک امین کو چھاتی سے لگا کر پیار کرتا رہا۔ اس وقت اس کا نازک اور لطیف جسم اس کے گندے پہلو میں ایسا معلوم ہوتا تھا۔ گویا سفید دھلا ہوا کپڑا کیچڑ میں ڈال دیا گیا ہے بہر حال اختلاط کی یہ مکروہ کیفیت کچھ دیر جاری رہی۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ غول بیابانی امین سے وصل کا خواہشمند ہے اور وہ اس کو ناز و انداز دکھا رہی ہے۔ تھوڑی دیر تک یہ تماشہ بھی ہوتا رہا۔
اس کے بعد آخر وہ دیو نما انسان امین کے ساتھ مشغول ہو گیا اور دونوں کے جوش جذبات اور احساس لذت کی دھیمی دھیمی آوازیں مجھ تک بھی آنے لگیں۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ شاید میری بیوی انسانی نسل کے بجائے غول بیابانی کی کوئی نسل ہے ۔ کچھ دیر کی ہما ہمی کے بعد مرد ہٹ گیا اور امین اسی طرح لیٹی رہی۔ اس عرصہ میں مرد نے ایک تازہ قبر کھول کر مردہ نکال لیا اور امین کے قریب لا کر اس کو دکھایا وہ بھی ہنستی ہوئی اٹھ بیٹھی اور دونوں نے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھانا شروع کر دیا۔ یہ روح فرسا منظر دیکھ کر عام حالات میں شاید میں بیہوش ہو جاتا لیکن اس لیئے ذرا دیر پہلے کے واقعات نے اتنا جوش و غضب پیدا کر دیا تھا کہ میں اس منظر کو برداشت کر گیا۔ یہ دونوں بد نصیب مردے کے جسم کا گوشت کھا چکے تو اس کی ہڈیوں کو واپس قبر میں دفن کر دیا اور میں نے اندازے سے سمجھ لیا کہ اب یہ دونوں یہاں سے چلنے والے ہیں اس لیے میں وہاں سے ہٹ کر تیزی سے گھر چلا آیا اور اپنے پلنگ پر لیٹ کر ایسا بن گیا گویا اٹھا ہی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیوی پلنگ پر واپس آگئی اور غالباً اظہار محبت کے لئے میرے پاس ہی لیٹ گئی ۔ اس وقت مجھے اتنی کراہت کا احساس ہوا کہ جی چاہتا تھا کہ اس کو دھکا دے دوں ۔ لیکن میں نے معاملہ کو صبح پر ملتوی رکھا کہ اچھی طرح غور کر کے فیصلہ کروں گا ۔ صبح کو اٹھ کر میں نے غسل وغیرہ کیا اور اپنی دوکان پر چلا آیا اور برابر اس مسئلہ پر غور کرتا۔ رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ اگر قتل کرتا ہوں تو گرفتاری اور قصاص کا حوف سامنے آتا ہے ۔ اگر
خاموش ہوتا ہوں تو اپنی بے عزتی کا احساس پیدا ہوتا ۔ اسی الجھن میں دوپہر ہوگئی اور میں گھر واپس آیا۔ مجھے دیکھ کر اس نے دستر خوان بچھایا اور کھانے چن دیئے ۔ جب میں کھانا کھانے کیلئے بیٹھا تو معمول کے مطابق بطور نمائش وہ بھی شریک ہو گئی لیکن میں نے اس کے کھانے سے اندازہ کیا کہ ایک ایک دانہ منہ میں ڈالتی جاتی تھی ۔ اصل حالات اپنی آنکھوں سے دیکھ چکنے کے بعد آج مجھے اس کی ان حرکات پر غصہ آیا اور میں نے اس سے کہہ ہی دیا۔ کہ جان من اگر تمہیں یہ چیزیں ناپسند ہیں تو اپنی مرضی کا کھانا پکوا لیا کرو۔ آخر مردے کے گوشت سے اچھی کوئی چیز تو ہوتی ہوگی۔ یہ سنتے ہی وہ سمجھ گئی کہ یہ راز سے واقف ہو گیا ہے۔ اس نے دستر خوان پر رکھا ہوا پانی کا برتن اٹھایا اور یہ کہہ کر پانی مجھ پر پھینک دیا کہ کمبخت کتا بن جا۔ اسی وقت میری ہیت بدل گئی اور میں کتے کی شکل میں آگیا۔ پھر اس نے ایک لکڑی اٹھائی اور مجھے اتنا مارا کہ جابجا خون بہنے لگا بمشکل میں گھر سے بھاگا تو محلہ کے کتوں نے مجھے اجنبی سمجھ میرا پیچھا کیا۔ وہاں بھی نہ ٹھہر سکا۔ مجبوراً ایک قصاب کی دوکان پر اس کی چوکی کے نیچے بیٹھ گیا۔ رحم کھا کر اس نے سب کتوں کو بھگا دیا میں دیر تک وہیں پڑا رہا۔ اپنی حالت کے متعلق طرف مایوسی کا تاریک سایہ چھایا ہوا تھا۔ دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد میں وہاں سے نکلا تو قصاب نے ایک گوشت کا ٹکڑا میرے آگے ڈال دیا۔ میں دم ہلاتا ہوا اس کے قریب گیا تو معلوم نہیں کیا سمجھا اور مجھے ایک لکڑی بڑے زور سے ماری، میں وہاں سے بھاگا۔ اور ایک نانبائی کی دوکان پر پناہ لی ۔ شام تک میں وہاں پڑا رہا تو اس نے ایک روٹی کا ٹکڑا میرے آگے ڈال دیا۔ میں نے کھا لیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ اسی طرح کئی روز گزر گئے۔ اور نانبائی یا دوسرے لوگ کچھ بچا کھچا میرے آگے ڈال دیتے اور میں اس کو کھا کر پانی پی لیتا۔ ایک روز ایک عورت روٹی لینے آئی اور جو
درہم اس نے نانبائی کو دیئے ان میں ایک درہم کھوٹا تھا۔ جب عورت جانے لگی میں نے اس کا دامن پکڑ لیا۔ اس نے ہر چند شور کیا لیکن میں نے اس کو نہ چھوڑا۔ نانبائی خود اٹھا اور مجھے الگ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر کھوٹے در ہم پر پیر رکھدیا اور اشارے سے نانبائی کو دکھایا۔ اب نانبائی نے غور کیا تو اسے معلوم ہوا کہ واقعی درہم کھوٹا ہے۔ اس نے وہ درہم تو عورت کو واپس دیا کہ اس کو بدلو لیکن وہ میری سمجھ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا اور ان کو یقین نہ آیا، چنانچہ بطور امتحان میرے سامنے کھرے اور کھوٹے درہم مل کر ڈال دیئے میں نے ان کو الگ الگ کر دیا۔ اب تو میری ہر جگہ شہرت ہوگئی کہ فلاں نانبائی کے یہاں ایک کتا ہے جو کھوٹے کھرے درہم پہچان لیتا ہے۔ لوگ خواہ مخواہ مجھے دیکھتے چلے
آتے اور امتحان لیتے ۔ اسی طرح نانبائی کی بیکری بہت بڑھ گئی اور وہ میری بڑی خاطر کرنے لگا۔ ایک روز ایک عمر رسیدہ عورت روٹی لینے آئی اور اس نے چند درہم ملا کر نانبائی کو دیئے۔ اس نے پرکھنے کو میرے آگے ڈال دیئے۔ میں نے کھوٹے سکے الگ کر دیئے عورت نے نانبائی کو تو دوسرے
اچھے درہم دیدیئے لیکن جب چلنے لگی تو مجھے اشارے سے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں اس خیال سے اس کے پیچھے ہولیا کہ شاید اسی کی بدولت میں اس مصیبت سے چھوٹ جاؤں۔ نانبائی نے مجھے اس لئے روکنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ جانتا تھا کہ میں کہیں نہیں جاؤنگا۔ ادھر ادھر گھوم کر اسی دوکان پر لوٹ آؤں گا۔ جیسا کہ میں اکثر کرتا رہتا تھا۔ میں اسی عورت کے ساتھ ایک مکان میں آگیا وہاں ایک جوان خوبصورت لڑکی بیٹی تھی۔ بڑھیا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا کہ بیٹی یہ ہی وہ کتا ہے جو کھوٹے کھرے
درہم شناخت کر دیتا ہے۔ اس نے پہلے غور سے میری طرف دیکھا۔ پھر کہنے لگی کہ ابھی اصل راز معلوم ہو جائےگا۔ تم مجھے ذرا سا پانی دو۔ بڑھیا نے ایک گلاس میں پانی لا کر رکھا، پھر اس جوان عورت نے اس پانی پر کچھ پڑھ کردم کیا اور یہ کہہ کرمجھ پر پھینک دیا کہ تم کسی اور ہیت سے کتے کی ہیت میں آئے ہو۔ تو اپنی اصلی صورت پر لوٹ آؤ۔
پانی پڑتے ہی میں اپنی اصلی شکل میں آگیا، اور دوڑ کر اس کے قدموں پر گر پڑا اس نے اٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کس طرح پیش آیا ۔میں نے اپنی محسن کو ساری داستان اول سے آخر تک سنائی ۔ وہ دیر تک افسوس کرتی رہی پھر بولی کہ تمہاری اس بد کردار بیوی کو کچھ سزا ضرور ملنی چاہئیے چنانچہ اس نے کچھ پانی پڑھ کر مجھے دیا اورکہا کہ اس کو لے جاؤ اور اپنی بیوی پر ڈال کر جس جانور کا نام لوں گے اس کی شکل بن جائے گی۔ میں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور پانی لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ خوش قسمتی سے جب میں پہنچا تو امین کسی کام میں مصروف تھی۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا میں نے پانی پیچھے سے اس پر پھینکا اور حکم دیا کہ گھوڑی بن جا۔ اور وہ فوراً گھوڑی کی شکل میں منتقل ہو گئی ۔ اس کے بعد ہنٹر لیکر میں نے اتنا مارا کہ میرے ہاتھ درد کرنے لگے۔ پھر اس کو اصطبل میں باندھ دیا۔ کل حضور نے مجھے جس گھوڑی پر سوار اور اسے پیٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ وہی بد نصیب گھوڑی ہے . اب میں اس کو روزانہ سزا دیتا ہوں : تاکہ اسے احساس ہوتا رہے کہ جو بد اعمالیاں وہ کرتی رہی ہے۔ وہ خود اس پر گزریں تو یہ تکلیف ہوتی ہے ۔ اب حضور ہی انصاف فرمائیں کہ میں نے کیا ظلم کیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری مصیبت کے پیش نظر میرے فعل کو درست خیال فرمائیں گے۔ لقمان اپنا قصہ سنا کر ادب سے ایک طرف کھڑا ہو گیا خلیفہ نے کہا بیشک تمہاری مصیبت دردناک ہے۔ لیکن کیا اب تم اس کو اصلی صورت پر نہیں لا سکتے ممکن ہے اس کی اصلاح ہو گئی ہو ۔ نوجوان نے عرض کیا کہ حضور کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اگر اس بد بخت نے میرے ساتھ برائی کی تو کیا کروں گا۔ خلیفہ ہارون الرشید خاموش ہو گئے اور حسن خبال کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ میں نے سنا ہے پہلے تم نہایت مفلس تھے اور اس کے بعد دفتہ تمہاری مالی حالت بہت اچھی ہو گئی اس کے کیا اسباب تھے۔ بوڑھا ادب سے سلام کرکے آگے بڑھا اور اس طرح اپنا حال عرض کرنے لگا ۔