Daily Roshni News

عذاب یا سیلاب۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

عذاب یا سیلاب

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عذاب یا سیلاب۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )آثار قدیمہ، کھنڈرات، تاریخی کتب اس بات کے گواہ ہیں کہ جب بھی انسان اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے اسے اس کی سزا ضرور ملتی ہے۔ بظاہر معمولی نظر آنے والی چیزوں ہوا، پانی، مٹی کے ذریعے بڑی بڑی طاقتور اقوام کو نیست و نابود کر دیا گیا۔اگرچہ آج غیر مسلم ایسی آفات کو کلائمنٹ چینج یا گلوبل وارمنگ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔اور یہ کہتے ہیں کہ انسان نے مالی فوائد کے لالچ میں درخت کاٹے، پہاڑ کھودے، دریاوں کا رخ موڑ کر وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائیں، فیکٹریز، کاروں کے فیول سے ماحولیاتی آلودگی بڑھی۔نتیجتا زمین کا درجہ حرارت بڑھا، اوزون کو نقصان پہنچا، گلیشیئر پگھلے سیلاب آئے۔یہ اسباب بھی بالکل ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں قصص قرآنی پڑھ کر عبرت پکڑنے اور تباہ شدہ اقوام جیسے کام نہ کرنے کا حکم یاد رکھنا چاہیے۔

   اگر ہم اپنے افعال و اعمال کا جائزہ لیں تو یقین مانیے ان اقوام کا ہر وہ فعل ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے جو ان کی تباہی کا باعث بنا۔ناپ تول میں کمی سے لے کر علماء کے قتل تک۔کیا ہمارے معاشرتی رویے اور بداعمالیاں ہمیں انہی جیسے انجام کی طرف نہیں لے جا رہیں؟

حالیہ سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو متاثر کیا ہے۔نہ صرف مال، مویشی، جانوں کا نقصان ہوا بلکہ کھیت اجڑ گئے لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ایسے میں افواج پاکستان اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں نے بوٹس کے ذریعے متاثرین کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا۔خوراک، ادویات سمیت دیگر بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں۔لیکن وسائل کم ہیں اور لوگ زیادہ۔چند کشتیاں اور ہزاروں لوگ کس کس کو بچاتے۔

   ایسے میں وہ لوگ منظر عام پر آئے جن کے پاس اپنی کشتیاں تھیں خواہ وہ ملاح تھے یا مخیر حضرات اپنی کشتیاں لے کر فورا متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔مگر آپ کسی خوش فہمی کا شکار مت ہو جائیے گا کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ہرگز نہیں۔ہماری قوم کا خاصہ ہے کہ ہم کسی بھی موقعے پر کاروبار کرنے لگتے ہیں۔چاہے رمضان کا بابرکت مہینہ ہو جب جرمنی، انگلینڈ امریکہ میں بھی رمضان سیل لگا دی جاتی ہے۔یا کوئی قومی سانحہ ہم نفع کمانے کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

سیلاب کے دوران بھی یہی ہوا۔ کشتیوں کے مالکان نے جان بچانے کو کاروبار بنا لیا۔ ڈوبتے ہوئے لوگوں سے پانچ ہزار سے پچاس ہزار روپے فی کس وصول کیے گئے۔ جس کے پاس پیسے تھے وہ بچ نکلاجس کے پاس نہ تھے وہ پانی میں ڈوب گیا۔اور بچنے والے اس کی ویڈیو بنا کر ویووز کے ذریعے مال بناتے رہے۔یہ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

   تصور کیجئے ایک ماں اپنے بچوں کے ساتھ ڈوب رہی ہے کشتی دیکھ کر اسے ایک آس بندھتی ہے کہ اب وہ اور اس کے بچے بچ جائیں گے۔مگر کشتی والے اسے بچانے کی بجائے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔بے سروسامان ماں اپنی زندگی کا واحد بچ جانے والا اثاثہ اولاد لیے پانی میں گھری ہے پیسے کہاں سے لائے گی۔مگر کشتی والے کو اس سے غرض نہیں اسے تو اپنا کرایہ وہ بھی منہ مانگا چاہیے۔کیا یہ رویہ ہمیں انسان کہلوانے کے لائق چھوڑتا ہے؟ کیا اللہ ایسے لوگوں پر رحم کرے گا جو مصیبت کو بھی بزنس بنا لیتے ہیں؟

چلیں بات یہاں تک رہتی تو شاید افسوس کم ہوتا ۔مگر کچھ علاقوں میں جہاں سیلاب سے پہلے لوگ گھر چھوڑ گئے تھے کچھ ایمان والے مسلمانوں نے موقعہ غنیمت جانا ان کے گھروں سے قیمتی سامان چرایا۔یہاں تک کہ سیلاب میں ڈوبنے والی خواتین کے زیورات تک اتار لیے گئے۔ ان کے کانوں سے بالیاں کھینچی گئیں، ان کے بازوؤں سے چوڑیاں نوچ لی گئیں۔

یہ سب پڑھ کر یا سن کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو پانچ وقت کی اذان سنتی ہے، رمضان میں روزے رکھتی ہے، اور حج و عمرہ پر جانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے۔ لیکن جب امتحان کا وقت آیا توحقوق العباد کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا۔

   اللہ تعالٰی کہتا پے ہر مصیبت انسان کے اپنے ہاتھوں کمائی ہوتی ہے۔اور آزمائش اس لیے آتی ہے کہ انسان رب کی طرف رجوع کرے توبہ کرے۔ہم بھی قدرتی آفات کے موقعے پر اللہ کا رحم اور مدد مانگتے ہیں اس سے بچانے کی دعائیں کرتے ہیں۔لیکن کیا کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہم اس کے رحم مدد کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔اللہ تعالیٰ تو عدل کرنے والا ہے۔ جب ہم دوسروں کے دکھ پر کاروبار کریں، مظلوم کا مال لوٹیں، اور ڈوبتی جانوں کو پیسوں کے بغیر بچانے سے انکار کریں تو پھر اللہ کا غضب کیوں نہ نازل ہو؟

   سمجھ جائیے ہم پر آفات دنیاوی اسباب کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے اخلاقی و دینی انحطاط کی وجہ سے ہیں۔قرآن کہتا ہے: “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔” آج اگر ہم اجتماعی طور پر کرپشن، جھوٹ، ملاوٹ، بے ایمانی، اور لالچ کو اپنا چکے ہیں تو پھر اجتماعی عذاب سے بچنے کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟

ہم نماز پڑھتے ہیں مگر سود بھی کھاتے ہیں۔حج کرتے ہیں مگر لوگوں کا حق مارتے ہیں انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔روزہ رکھتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی بھی کرتے ہیں۔جب دین محض رسم بن جائے اور معاملات و اخلاقیات کو بھلا دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے۔

   اس لیے جب بھی زلزلہ، سیلاب یا کوئی وبا آئے تو اسے وارننگ سمجھ کر توبہ کریں اپنے اعمال بدلیں، انفرادی و اجتماعی روش تبدیل کریں ورنہ عنقریب ہم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دئیے جائیں گے۔ہر فرد کو سمجھنا ہوگا کہ لالچ اور بے ایمانی کا نقصان صرف فرد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو اٹھانا پڑتا ہے۔کیونکہ گہیوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔اگر ہم نے ایسے مواقع پر ایک دوسرے کا سہارا نہ دیا تو ہم دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی۔اللہ کی پکڑ سے بچنے کا واحد راستہ اس کا حکم مان کر حقوق العباد ادا کرنا اور دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔اگر ہم مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی بجائے ان سے پیسے مانگتے رہے تو سیلاب آزمائش نہیں عذاب ہی ہے۔

Loading