Daily Roshni News

عزت  کی  نوٹنکی۔۔۔۔۔۔

عزت  کی  نوٹنکی۔۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آٹھویں کلاس کا طالب علم ,اس کا نام اسلم تھا اسلم کا ابا ٹانگہ والا تھا۔گاوں کی طرف جانے والے راستے کے بیچ کھڑا ہو کر شہر سے آنے والے سواریوں کو گاوں لے جاتا تھا یہی اس کا ذریعہ معاش تھا ویسے اب لوگ ٹانگے میں بیٹھنا زیادہ پسند نہیں کرتےتھے۔اب تو کچے راستے بھی پکے کر دیے گئے تھے رکشہ اور بائیکس نے ٹانگے کی جگہ لے لی تھی مگر اسلم کے ابا شکور ٹانگے والا ہی رہا۔اس کا خواب تھا۔اس کا بیٹا اچھے بڑے سکول میں پڑھے اور بڑا آدمی بنے سو شروع سے ہی گاوں کے متصل شہر کے پاس ایک پرائیویٹ سکول میں بیٹے کو داخل کرا دیا۔

بڑے سکول میں غریب کا بیٹا پڑھنے جائے تووہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور پڑھنے اور بڑا آدمی بننے کی راہ میں اس کی یہ احساس کمتری  حائل ہوتی ہے۔

ایک دن اس کا بیٹا اسلم بیمار ہوگیا مگروہ سکول چلا گیا۔ماں کو فکر ہوئی اور شوہر سے کہا کہ اسلم کو سکول سے لے آنا اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی صبع۔

شکور کو بھی فکر تھی سو وہ ٹانگے کو گاوں کے کچے پکے راستے سے نکال کر شہر کی پکی سڑک پر لے آیا۔اور سکول زیادہ دور نہ تھا۔

سکول کے باہر ٹانگہ کھڑاکر کے اندر آفس میں گیا۔اور پرنسپل صاحب سے کہا کہ اسلم کو بخار تھا صبع تو اسے گھر لے جانے آیا ہوں۔

پرنسپل نے کسی کو بھیج کو کلاس سے اسلم کو بلا بھیجا۔اسلم کی طبیعت تو خراب تھی اب یہ سن کر اس کا موڈ خراب ہوا کہ اس کا باپ اسے لینے آیا ہے۔وہ اپنے ساتھیوں کو کہتا رہا مت آو۔ساتھ میں چلا جاوں گا مگر پھر ٹیچر نے کہا کہ آپ کو بخار ہے ساتھ چلو۔

چار لاچار آفس تک آنا پڑا۔ اسلم شرم سے ڈوبا جا رہا تھا اسنے تو سکول کے دوستو کو کہا تھا کہ اس کا باپ بزنس مین ہے جب انہیں پتہ چلے گا کہ اس کا باپ ایک ٹانگے والا ہے تو کیا عزت رہے گی سکول میں۔

ایک تو  اسلم کو بخار تھا اور دوسرا اس کا موڈ خراب تھا لہجے میں تلخی آگئی۔کہنے لگا اپنے ابا سے کہ کیا ضرورت تھی آپ یہاں آئے۔ابا کہاں ہے میرا۔؟

اس کے ابا نے یہ سنا تو معاملہ سمجھ کر سمبھالنے لگا۔ارے صاحب جی نے مجھے آپ کو لینے بھیجا ہے آپ کے لیے صاحب جی بہت فکر مند ہیں۔

باپ بیٹے کی گفتگو سن کر پرنسپل کو شدید شاک لگا یہ کیا دیکھ اور سن رہا ہوں آج۔۔

بیٹا نے جھوٹی شان کے لیے اپنے سگے باپ کو پرایا کر دیا اور باپ کو دیکھو بیٹے کی مرضی خوشی اور جھوٹی آن کی خاطر محض تین سیکنڈز میں فورا ہی باپ کے مرتبے سے اتر کر بیٹے کا نوکر بننے کی اداکاری کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 راستے میں خاموشی رہی ٹانگے کی ٹھپ ٹھپ سنائی دے رہی تھی۔ پھر اسلم بولا کیا ضرورت تھی ابا میرے سکول آنے کی۔ شکور زخمی نگاہوں سے بیٹے کی طرف  دیکھنے لگا۔تیری طبیعت خراب تھی بیٹا۔مجھے آنا پڑا۔

اسلم بولا ابا آپ کو اور کام نہیں کر سکتے۔یہ ٹانگہ چلانا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟

ابا کیا جواب دیتا۔خاموش ہی رہا۔

گھر پہنچے تو اسلم ماں سےالجھ گیا۔کیوں بھیجا ابا کومیرے سکول میرے دوستو میں میری دو ٹکے کی عزت نہ رہی۔ماں کا جواب بھی وہی تھا۔ہمیں فکر تھی۔بیٹا۔

مگر اسلم ناراض ہی رہا۔ابا کو سکول نہیں آنا چاہیے تھا۔میرے دوست میرا مذاق اڑائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکول پرنسپل  اشفاق صاحب بہت فکر مند نظر آئے باپ ٹانگہ والا ہے ریڑھی لگاتا ہے یا ملک کا وزیر اعظم ہے اس کی اولاد کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔اور ہر بیٹے کو اپنے باپ کے پیشے پر فخر ہونا چاہیے۔پرنسپل صاحب کافی فکر مند تھے کہ کم از کم میرے سکول میں تو ایسی سوچ رکھنے والے طالب علم کی تربیت ہونی چاہیے۔اسے وہ منظر بھلائے نہ بھول رہا تھا۔کہ اس کا سگا باپ خود کو بیٹے کے گھر کا ملازم بن کر اپنے بیٹے کو لینے آیا۔اور بیٹے نے دوستوں کے سامنے اپنے ہی باپ کو ملازم بنا کر ڈانٹا۔

اشفاق صاحب نے سپر پلان بنایا۔

اسلم کو سبق سکھانے کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنسپل صاحب پانچویں جماعت سے لیکر میٹرک تک کی کلاسوں میں ایک حکم نامہ جاری کردیا۔کہ آج کے بعد ہر سٹوڈنٹ۔ پین او کیو۔ نامی پین استعمال کرے گا۔

اگلےتین دن بعدپرنسپل صاحب کلاسوں میں جا جا کر ایک ایک سٹوڈنٹ کو پین دکھانے کے لیے کہا۔کہ انہوں نے پرچیز کیا بھی ہے یا نہیں۔

سب نے پرچیز کیا تھا یہ پین۔ پین او کیو۔جس کی قیمت 1000 روپے تھی۔

آٹھویں کلاس میں پرنسپل صاحب نے وزٹ کیا اور اسی طرح سب بچوں کو کہا کہ ایک ایک کر اپنا پین او کیو پین دکھائیں خرید کر استعمال کر رہے ہیں یا نہیں۔سب کے پاس تھا سواۓ اسلم کے۔

اسلم نے بہانا بنایا کہ سر میرے گھر کے پاس سٹیشنرزکی دکان پر ختم ہوئے ہیں ایک دو دن میں پین او کیو پین وہ منگوا لے گا توخرید لوں گا۔تبھی پرنسپل نے کہا کلاس میں آپ کا بیسٹ فرینڈ کون ہے۔اسلم بولا سر میرا دوست بلال اور عمر ہیں۔پرنسپل صاحب نے اسے کہا اپنے دوستوں سے فلحال پین او کیو لے کر کام چلاو جب تک اپنا پرچیز نہیں کرلیتے۔اور ہاں اپنے والد صاحب کو کہنا کہ کل سکول آفس چکر لگائے۔

 اسلم نے جی اچھا کہا ۔کچھ دیر کے لیے عمر اور کچھ دیر کو بلال نے اپنا قیمتی پین اسے کلاسورک کرنے کے لیے دیا مگر ساتھ میں بار بار جتلایا اپنے لیے پین کا بندوبست کرو جلدی۔یہ پین بہت مہنگا ہے۔اسلم کو بہت دھچکا اور کوفت ہونے لگی۔پین 1000 روپے کا ہونے کی وجہ سے خریدنے میں مشکل ہورہی تھی دوسری طرف اتنے بیسٹ فرینڈز سیدھے منہ بات نہیں کر رہے۔

اسے امید نہ تھی دوستوں سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلم کے ابا شکور سکول کے آفس میں بیٹھے تھے۔پرنسپل صاحب نےکہا ۔شکور صاحب بیٹے کی خوشی کے لیے والدین بہت کچھ کرتے ہیں مگر آپ اپنے بیٹے کی تربیت اس طرح کر رہے ہیں کہ وہ کل آپ کے بڑھاپے میں سہارا بننے کی بجائے آپ کو بوجھ سمجھ کر چھوڑدے گا۔

شکور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔مجھے کیا کرنا چاہیے۔

پرنسپل صاحب بولے جس طرح میں کہتا ہوں اس طرح کرو۔یہ کہتے ہوئے اس نے دراز سے 10 پین نکالے پین او کیو کے۔

اور اسے دیتےہوئے کہا یہ لو یہ 1000 روپے کا ایک پین ہے اور دس ہزار خرچنا آپ کے بیٹے کی تربیت سے بڑھ کے نہیں۔

شکور بولا سر میں کچھ سمجھا نہیں۔اور اس پین کے خریدنے کے لیے میرا بیٹا مجھے کہتا ہےکہ وہ خود کشی کر لے گا۔اگر میں نے اسے یہ پین خرید کر نہ دیا۔

تبھی پرنسپل صاحب مسکرائے اور بولے۔یہی میرا پلان ہے بس جیسے جیسے میں کہتا ہوں ویسا ہی کرو۔۔۔۔ٹھیک ہے نا۔۔شکور پرنسپل صاحب کا پلان سن کر حیران رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھٹی کے بعد  اسلم گھر آیا تو روزانہ کی طرح آج بھی ماں سے الجھ پڑا کہ میرے سکول میں پرنسپل صاحب نے پین او کیو نامی پین خرید کر سکول میں استعمال کرنے کا بار بار کہہ رہے ہیں اگر آپ لوگ میرے لیے پین نہیں خرید سکتے تو میں خود کشی کرلوں گا۔وہ روہانسی ہوگیا۔

اسی اثناء میں اس کے اباگھر میں داخل ہوئے۔

بیٹے کے ڈائیلاگ سن لیے تھے۔

کہنے لگے بیٹا وقت سے پہلےنہیں نصیب سے زیادہ نہیں۔

بیٹا بدتمیزی سے بولا۔ابا چھوڑ دیں یہ کتابی باتیں آپ میرے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔

آپ نے میرے لیے ابھی تک کیا ہی کیا ہے؟ مجھے سکول میں بے عزتی محسوس ہوتی ہے۔وغیرہ

ابا خاموش ہی رہا۔پھر اندر جا کر کمرے سے پین او کیو کے پین لایا اور بیٹے کو ایک پین نکال کر دیتے ہوئے کہا یہ لو پین او کیو کا پین۔

اسلم جلدی سے پین لیا غور سے الٹ پلٹ کر کے پیکنگ دیکھنے لگا پھر پرجوش اندازمیں بولا ابا یہ تو واقعی پین او کیوہی ہے۔

اس کی خوشی دیدنی تھی۔ابا نے تھیلے سے دوسرا پین نکال کر دیا۔یہ لو۔دوسرا پین

اسلم دوسرا پین دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ابا ایک ہزار روپے کا پین ہے۔دو لے آیا؟

ابا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔میں نے اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کیا ۔پھر تھیلے سے تیسرا پین نکال کر اس کی طرف بڑھا۔

بیٹے کا فوکس پین سے ہٹ گیا۔بس ٹکر ٹکر بے بس باپ کے چہرے کو دیکھنے لگا۔

باپ روکنے والا نہیں تھا۔چوتھا پین نکالا۔

اسلم شرم سے اب پانی پانی ہورہا تھا۔اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

شکور بدستور تھیلے سے پین نکال نکال کر اس کی طرف بڑھاتا رہا دس پین تھے ۔

شکور بولتا جا رہا تھا میں اپنے بیٹے کے لیے یہ کر سکتا ہوں۔اس کی آنکھوں سے لڑی لڑی آنسو بہہ رہے تھے۔اسلم چیخ مار کر اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ابا مجھے پتہ ہی نہیں چلا میں نے کتنے لفظوں کے زہر آلود تیر برسادیے۔

مجھے معاف کردیں ابا۔وہ روتا رہا۔

شکوردل ہی دل میں پرنسپل صاحب کو دعا دینے لگا۔

مگر اسلم بار بار پوچھتا رہا ابا دس ہزار روپے کہاں سے آئے آپ کے پاس ۔

اردوناول کہانیاں

تبھی پرنسپل صاحب کے منصوبے کا اگلامرحلہ شروع ہوا۔کہنے لگے بیٹا میرے پاس پیسے نہ تھے تواپنے دوست کے پاس آگیاجو فروٹ کی ریڑھی لگاتا ہے۔ اس سےکہا کہ مجھے پین او کیو نامی پین خریدنا ہے۔مگر پیسے نہیں ہیں۔

اس نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔

میں نے ایک اور دوست جو کہ ہتھ ریڑھی منڈی میں چلاتا ہے اس کو جا کر کہا کہ پین او کیو پین چاہیے۔مگر ہزار روپیہ نہیں پاس ۔اسنے بھی وعدہ کیا مدد کرنے کا ۔میں آگےبڑھ گیا۔مجھے آج پتہ چلا میرے سارے دوستو نے میرےلیے پین خرید کر رکھے تھے۔میں نےسب کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا شکور بھائی آپ کا بیٹا ہمارا بھتیجا ہے۔ہم آپ کو مشکل وقت میں ساتھ دیتے رہیں گے اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق۔

اسلم نے یہ سنا تو سوچنے لگا۔کیا فائدہ بلال اور عمر جیسے دولت مند دوستو کا جو سکول میں محض کچھ دیر کے لیے بھی ساتھ نہیں دیتے۔دوست تواباجی کے ہیں جو مدد کو پہنچے۔اس نے دولت مندوں سے مرعوب ہونا  چھوڑ دیا۔

دوستو کسی کی وفا کو دولت مندی کے پیمانے میں تول کر نہ دیکھو نہ پرکھو۔اکثر غریب کی مدد کرنے غریب ہی آتے ہیں۔۔

#ٹانگہ #فرینڈ #اردو #سٹوری

Loading