بعض مستند روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ طویل سیاحت کے دوران بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے نیشاپور میں بھی قیام فرمایا تھا۔ یہت تاریخی شہر جہاں اور کئی حوالوں سے مشہور ہے وہاں اس سرزمین کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں نامور بزرگ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے اپنی خانقاہ تعمیر کی تھی اور بے شمار بھٹکتے ہوئے مسافروں کوان کی منزلوں کا پتہ دیا تھا۔ جب حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ حضرت فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت شیخ نے آپ کا والہانہ استقبال کیا اور شدت جذبات سے سرشار ہوکر فرمایا۔
’’لوگو! غور سے دیکھو کہ کون آیا ہے؟ فرید ہندی آیا ہے میرا محبوب فرید ہندی‘‘
حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کے اس اخلاق کریمانہ سے بہت متاثر ہوئے اور جب تک نیشاپور میں آپ کا قیام رہا‘ اس مرد جلیل کے فیض صحبت سے استفادہ کرتے رہے۔
پھر جب حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نیشاپور سے رخصت ہوگئے تو چند سال بعد ایک بڑا جانگداز واقعہ پیش آیا جسے پڑھ کر آج بھی اہل دل کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
بے عملی اور بے خبری کے سبب جب گردش وقت نے مسلمانوں کا احتساب کیا تو یہ آباد شہر آن ہی آن میں مقتل بن گیا۔ منگولوں نے ہلاکو خان کی زیر قیادت نیشاپور پر حملہ کیا اور جب اہل شہر کو نوشتہ دیوار صاف نظر آنے لگا کہ حاکم نیشاپور چند معززین کے ہمراہ شیخ فرید الدین عطاررحمتہ ﷲ علیہ کی خانقاہ میں حاضر ہوا اور اپنی قوم کی تباہی و بربادی کا مرثیہ پڑھنے لگا۔
’’شیخ! ہماری قوم کا سفینہ گرداب ہلاکت میں اس طرح گھر گیا ہے کہ ساحل کے آثار دور تک نہیں آتے۔ اگر آپ نے ہمارے حق میں دعائے خیر نہیں کی تو یہ موج خوں سروں سے گزر جائے گی اور پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا‘‘
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ میری دعائیں اس طوفان بلاخیز کو روک لیں گی؟‘‘ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے حاکم نیشاپور سے دریافت کیا۔
’’یقینا ایسا ہی ہوگا‘‘ والی نیشاپور نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
’’میں تو اہل شہر کے لئے روز ہی دعائیں کرتا ہوں۔ پھر نفرت و قہر کے نمائندوں نے ادھر کا رخ کیوں کیا؟‘‘ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے حاکم نیشاپور سے پوچھا۔
معززین شہر حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ حاکم نیشاپور بھی حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کے اس سوال کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
حضرت شیخ نے مختصر سے وقفہ سکوت کے بعد دوبارہ حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’جب سالہا سال سے تمہاری آنکھیں بند ہیں تو اب بھی انہیں بند ہی رہنے دو کہ آنکھیں کھول کر دیکھنے سے بھی عافیت کی منزل نظر نہیں آئے گی۔ جو دماغ عیش و نشاط کے گہوارے میں سوتے رہے ہیں‘ انہیں محو خواب ہی رہنے دو کہ اب جشن بیداری بھی بے سود ہے‘ جہاں سے جاگو گے‘ وہیں سے زندگی کی شام ہوجائے گی۔ تم نے قدرت کی دی ہوئی مہلت سوکر گزار دی۔ اب کچھ نہیں ہوگا‘‘
حاکم نیشاپور کو حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کا یہ جواب پسند نہیں آیا۔ اس نے کسی قدر ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’آپ خانقاہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما ہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ ہلاکو نے قتل و غارت کا کیسا بازار گرم کررکھا ہے۔ ہمارے کھیت جل کر سیاہ ہوچکے ہیں۔ دریائوں کا پانی ہمارے ہی خون سے سرخ ہوگیا ہے منگولوں کی شمشیر سفاک نہ عورتوں کا لحاظ کرتی ہے اور نہ بچوں اور بوڑھوں کا
’’تم ٹھیک کہتے ہو کہ میں خانقاہ کے ایک گوشے میں قید ہوں۔ تمہارے خیال میں صوفی کا کردار اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔ لہجے کی یہ ناخوشگواری ان اعتراضات کے جواب میں تھی جو اہل شہر نے صوفیوں کے حق میں روا رکھے تھے۔ بے دریغ کہا جاتا تھا کہ صوفیوں کو گوشہ نشینی کے سوا کیا آتا ہے؟ یہ لوگ انسانی معاشرے کا عضو ناکارہ ہیں۔ دن کو گردنیں خم کئے ہوئے حالت استغراق میں بیٹھے رہتے ہیں اور راتوں کے سناٹے میں شور مچاتے ہیں۔ راتوں کے شور سے ان کی مراد یہ تھی کہ جب صوفیائے کرام نصف شب کوبلند آواز سے ذکر الٰہی کرتے ہیں تو نیند کے متوالوں کو زندگی بخشنے والی یہ آواز ناگوار گزرتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حاکم نیشاپور نے حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی گوشہ نشینی اور جنگ سے بے خبری کا ذکر کیاتھا… مگر ذکر کرتے وقت اس کی بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک عظیم بزرگ کی خانقاہ کے آداب بھول گیا تھا اور اس کی گفتگو کسی حد تک گستاخانہ رنگ اختیار کرگئی تھی۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے اہل نیشاپور کے اسی ناروا سلوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
’’ہاں میں خانقاہ کے ایک گوشے میں قید رہتا ہوں۔ مگر اس کے باوجود میرا خدا مجھے سب کچھ دکھاتا ہے‘‘ اہل شہر کو اس کی خبر نہیں مگر حضرت شیخ رحمتہ ﷲ علیہ کو ایک گوشہ خانقاہ سے سب کچھ دکھایا جارہا تھا۔
حاکم نیشاپور اپنے الفاظ پر نادم ہوگیا اور بڑی شرمساری کے ساتھ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ سے معافی مانگنے لگا۔
’’میرا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ تم شرمندہ و خجل ہوجائو‘‘ حضرت شیخ عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے حاکم نیشاپور کو مزید احساس ندامت سے بچانے کے لئے فرمایا ’’یہ حقیقت ہے کہ ایک خرقہ پوش صوفی ایک فاقہ کش درویش تم لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرسکتا۔ اور وہ شخص ایک طوفان بلا خیز کو روکنے کے لئے بھی کیا کرسکتا ہے جسے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں… تم جائو اور اپنے تمام تر وسائل سمیٹ کر دشمن کی یلغار کا بھرپور مقابلہ کرو۔ یہی تمہاری بیماری کا علاج ہے اور یہی تمہارے مسئلے کا حل ہے‘‘
’’یہ باتیں ایک کم فہم انسان بھی جانتا ہے مگر میں اور نیشاپور کے تمام باشندے آپ کی دعائوں کے طالب ہیں۔ اب ہر زبان پر یہی الفاظ جاری ہیں کہ کوئی فوج ہلاکو کے لشکر قہر کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ مقابلے کا وقت گزر چکا۔ ہاں! اگر کوئی اسلحہ باقی ہے تو وہ صرف آپ کی دعائیں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ اپنا دست دعا بلند کردیں تو ہمارے سروں سے یہ قیامت ٹل سکتی ہے۔
حاکم نیشاپور کی بات سن کر حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ مسکرائے اور نہایت پرسکون لہجے میں فرمانے لگے ’’جس طرح تم یہ کہتے ہو کہ جنگ کا وقت گزر گیا‘ اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ دعائوں کا وقت گزر گیا‘‘
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی بے نیازی دیکھ کر حاکم نیشاپور اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا۔ اگرچہ وہ حضرت شیخ رحمتہ ﷲ علیہ کا عقیدت مند تھا لیکن موت کے خوف نے اس کے ذہن سے خانقاہ کے تمام آداب و قوانین محو کردیئے تھے۔ ایک بار پھر وہ تلخ لہجے میں کہنے لگا ’’ہمارے گھروں کے دروازوں پر موت رقص کررہی ہے اور آپ مسکرا رہے ہیں؟‘‘
’’اگر میرے رونے سے اہل شہر کی موت ٹل جاتی تو میں اپنی عادت کے خلاف پرسوز گریہ وزاری کرتا۔ یہاں تک کہ میرے آہ و فغاں سے نیشاپور کے درودیوار تک گونجنے لگتے… مگر میں جانتا ہوں کہ آنے والی موت کو کوئی بھی انسانی تدبیر نہیں روک سکتی‘‘ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے موت کے آفاقی فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
’’مسلمان اور کافر میں یہی فرق ہے کہ جب کوئی کافر موت کا چہرہ دیکھتا ہے تو اس کی گناہ گار روح جسم میں گھبراتی ہے اور وہ چیخ چیخ کر مر جاتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمان جانتا ہے کہ موت تقدیر الٰہی ہے۔ اس لئے وہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ﷲ کے فیصلے کا پرجوش خیر مقدم کرتا ہے۔ اب اگر میرے ہونٹوں پر تمہیں کسی قسم کا عکس نظر آتا ہے تو حیران کیوں ہو؟‘‘
یہ کہہ کر حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ ایک لمحے کے لئے خاموش ہوگئے اور پھر فورا ہی حاکم نیشاپور اور اس کے ہمراہ آئے ہوئے معززین شہر کو مخاطب کرکے فرمانے لگے۔
’’تم لوگ فضول باتوں میں اپنا وقت برباد نہ کرو۔ لوح محفوظ میں جو فیصلہ تحریر تھا‘ وہ اب زمین پر نازل ہوچکا ہے۔ اہل نیشاپور کو میری طرف سے خبر دو کہ اپنی شمشیریں بے نیام کرلیں اور پر آسائش بستروںکو چھوڑ کر اپنے گھروں سے نکل آئیں۔ وہ موت جو ان کے دروازوں تک آ پہنچی ہے‘ اس کا اس طرح استقبال کریں کہ مسلمانوں کی تاریخ شرمندہ نہ ہو اور دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اہل اسلام نے ان کی تواضع نہیں کی۔ دشمن خدا کی تواضع یہی ہے کہ یا تو وہ خاک و خون میں نہا جائے یا پھر تم پیوند زمین ہوجائو۔ اہل نیشاپور سے یہ بھی کہہ دو کہ تم جس کی دعائوں پر اتنا اعتبار کرتے تھے‘ آج وہ خود بھی کسی کے کرم کا محتاج ہے… اور اہل نیشاپور کو یہ بھی بتادو کہ اس سیلاب بلا سے کچھ بھی نہیں بچے گا… آج نہ کسی پیر کے لئے جائے اماں ہے اور نہ کسی مرید کے لئے کوئی پناہ گاہ۔ خون کی یہ تندوسرکش موجیں سب کچھ بہا کر لے جائیں گی۔ جائو! جلدی کرو… دعائوں کا سائبان طلب کرنے والو! اپنی منتشر صفوں کو درست کرو۔ ساعتیں شمار کی جاچکیں اور لمحات گنے جاچکے۔ پھر کس کا انتظار کررہے ہو؟ اب کوئی نہیں آئے گا۔ موت صرف موت … ہلاکت‘ بربادی‘ مقتل‘ زندان‘ شورسلاسل‘ ماتم زنجیر‘ بے گوروکفن لاشیں‘ بے نشان قبریں‘ سیاہ اعمال نامے‘ تاریک انجام اس کے سوا کچھ نہیں… جائو! جلدی کرو! مجھے بھی بہت دور جانا ہے‘‘
حاکم نیشاپور جو زندگی کے دلدادہ اور موت کے تصور سے خوفزدہ تھا بارگاہ شیخ سے مایوس ہوکر اٹھا… اور اس کے پیچھے معززین شہر کی وہ جماعت بھی اٹھی جو حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی دعائوں کے سہارے موت کے طوفان سے بچنا چاہتی تھی۔
جیسے ہی وہ لوگ خانقاہ سے باہر نکلے‘ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ اپنے حجرہ خاص میں چلے گئے۔ پھر کچھ دیر بعد باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں شمشیر بے نیام تھی۔ اپنے پیرومرشد کو آج پہلی بار اس رنگ میں دیکھ کر تمام مرید حیرت زدہ رہ گئے۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ اپنے مریدوں کی دلی کیفیات کا اندازہ کرچکے تھے۔ اس لئے آپ نے ان کی حیرت و استعجاب کو دور کرنے کی غرض سے فرمایا ’’تم لوگ میری ہاتھ میں تلوار دیکھ کر حیران کیوں ہو؟ حقیقی صوفی تو وہی ہے جس کے ایک ہاتھ میں تسبیح ہو اور دوسرے ہاتھ میں شمشیر بے نیام۔ درویش وہ نہیں جو ایک ہی گوشہ خانقاہ میں ساری زندگی بسر کردے۔ درویش گوشہ نشین اس لئے ہوتا ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ﷲ کو یاد کرسکے۔ معرفت میں یہ عمل بھی ﷲ کی رضامندی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب ﷲ کی مرضی یہ ہے کہ درویش خانقاہوں کو چھوڑ کر میدان کارزار کا رخ کریں۔ گوشہ نشیبی بھی اسی کے لئے اختیار کی تھی اور شمشیر بکف بھی اسی کی خاطر ہورہے ہیں۔ مرضی محبوب کی تلاش ہی درویشی ہے۔ کل تک تم جس محبوب کو خانقاہ کی تنہائیوں میں ڈھونڈ رہے تھے اب وہی محبوب تمہیں جنگ کی خون رنگ فضائوں میں ملے گا۔ اگر تم نے اس وقت اس کی جستجو نہیں کی تو پھر حشر تک سینہ کوبی کرتے رہو گے اور لباس کی دھجیوں کے سوا تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ خوب سمجھ لو کہ درویش کے نزدیک ضرب شمشیر بھی لاالہ الا اﷲ ہے۔ جو ان دونوں میں تفریق کرتا ہے‘ میں اسے درویش نہیں سمجھتا‘‘
اتنا کہہ کر حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ اپنی خانقاہ سے باہر نکلے اور تاتاریوں کے ساتھ اس طرح جنگ کی کہ جیسے آپ ایک پیشہ ور سپاہی ہوں۔ پھر جب تلوار ٹوٹ گئی اور آپ زخموں سے چور ہوگئے تو گرفتار کرلئے گئے۔ منگول سپاہی اس بات پر حیران تھے کہ اتنا ضعیف العمر انسان آخر کس طرح جنگ کرسکتا ہے؟ اس وقت حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی عمر ایک سو چودہ سال تھی۔ تاتاری حیرت کرتے رہے مگر انہیں کون بتاتا کہ یہ اس بوڑھے شخص کی قوت ایمانی تھی جس نے عرصہ کارزار میں اپنی شمشیر زنی کے جوہر دکھائے تھے۔
پھر جب نیشاپور کے درودیوار سے دھواں اٹھنے لگا اور بستیاں جل کر راکھ ہوگئیں تو منگول سپاہی تمام اسیران جنگ کو اپنے ساتھ لے کر جانے لگے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطاررحمتہ ﷲ علیہ بھی ان جنگی قیدیوں میں شامل تھے۔
ہلاکو خان کے سپاہی حضرت شیخ عطار رحمتہ ﷲ علیہ کو کھینچتے ہوئے لئے جارہے تھے کہ ایک تاتاری نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’یہ بوجھ کہا اٹھائو پھروگے؟ میری رائے ہے کہ اس بوڑھے کو ایک ہزار سکوں کے عوض فروخت کر ڈالو‘‘
جیسے ہی حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے اس تاتاری کی بات سنی۔ آپ بے اختیار بول اٹھے ’’ہرگز نہیں! مجھے ایک ہزار میں فروخت نہ کرنا۔ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے‘‘
منگول سپاہی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ انہیں گمان ہوا کہ شاید اسیری کے صدمے نے بوڑھے کے حواس چھین لئے ہیں۔ اسی وجہ سے بے معنی گفتگو کررہا ہے۔ حملہ آور وحشیوں کو کیا معلوم کہ یہ بوڑھا قیدی کون ہے اور سر مقتل بھی علم کے کس مقام سے بول رہا ہے؟
جب درندوں کا یہ قافلہ اپنے شکاروں کو جکڑے ہوئے کچھ آگے بڑھا تو ایک دوسرے تاتاری نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’اس بوڑھے کا کیا کروگے؟ یہ تو کسی بھی کام کا نہیں ہے۔ اسے گھاس کی ایک گٹھری کے بدلے میں بیچ ڈالو۔ کم سے کم تمہارے جانوروں کو تھوڑی بہت خوراک تو مل جائے گی‘‘
جیسے ہی حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ نے اس تاتاری کے الفاظ سنے‘ تو بے اختیار ہوکر فرمانے لگے ’’اب تم مجھے ضرور فروخت کردو۔ میری قیمت اس سے زیادہ نہیں ہے‘‘
جس تاتاری نے حضرت شیخ عطار رحمتہ اﷲ علیہ کو گرفتار کیا تھا۔ آپ کی بات سن کر سخت طیش میں آگیا پھر اس نے فورا ہی اپنی تلوار نکالی اور ایک ہی وار میں حضرت شیخ کا سر قلم کردیا۔ بالاخر جان مضطرب قرار پاگئی اور مسافر عشق منزل شہادت سے سرفراز کردیا گیا۔
جب حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی شہادت کی خبر حضرت بابا فرید رحمتہ ﷲ علیہ نے سنی تو شدت جذبات میں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر بڑے دل گرفتہ انداز میں فرمایا:
’’ﷲ اس مرد جلیل کی قبر کو نور سے بھردے۔ وہ ایسا جانباز تھا کہ مقتل عشق سے گزرے بغیر اس کے مضطرب قدم ٹھہر ہی نہیں سکتے تھے‘‘
علامہ اقبال نے بھی حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمتہ ﷲ علیہ کی بارگاہ جلال میں اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے:
عطار ہو‘ رومی ہو‘ رازی ہو‘ غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے آہ سحر گاہی!!!