علم ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رہنا چاہئے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )الفا زیرو AlphaZero ایک آرٹیفشل انٹیلیجنس کا نظام ہے جو شطرنج جیسی سٹریٹیجی گیمز میں ماہر بنتا ہے۔ اسمیں کمال یہ ہے کہ یہ نظام صفر سے شروع ہوتا ہے اور اپنے ساتھ کھیلتے ہوئے چند گھنٹوں میں ماہر بن جاتا ہے۔
اس نظام کو دنیاکا کوئی گرینڈ ماسٹر نہیں ہراسکتا۔ دنیا کے سارے گرینڈ ماسٹر مل کر بھی نہیں ہرا سکتے۔ یہ نظام ایسی moves بھی کرتا ہے جنہیں chess کے گرینڈ ماسٹرز غلط سمجھتے ہیں لیکن کئی چالیں چلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہی بظاہر غلط چال آگے چلکر deciding factor ثابت ہوئی تھی۔
ذرا سوچئے کہ اگر ہم ایسی مشینیں بنا سکیں جو اپنے آپ کو خود سکھا سکیں تو علم اور ٹیکنالوجی کی رفتار کدھر پہنچ جائے گی؟ وہ مشینیں اپنے آپ سے سیکھ کر ایسے algorithms بنا لیں گی جنہیں اگر ہم خود بنانے لگیں تو ہمیں کئی سال لگیں۔
ذرا سوچئے کہ کمپیوٹر کوڈنگ کرنے والی انٹیلیجنٹ مشین ہو۔ اسے کوڈنگ میں مہارت حاصل کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ اگر شطرنج جیسی مشکل گیم میں مہارت کیلئے اسے دو گھنٹے درکار ہیں تو کوڈنگ سیکھنے کیلئے شاید دو چار منٹ لگیں۔
ذرا سوچئے کہ ایک آرٹیفشل انوسٹمنٹ بینکر بنانا کتنا آسان کام ہو گا۔ آپ نے قرضہ اپلائی کیا، اور اگلے سیکنڈ میں آپ کی درخواست منظور یا مسترد ہو گئی۔
وکیل، جج، استاد، اکاؤنٹنٹس، ڈرائیور، کلرکس، مئنیجرز، کمپیوٹر پروگرامرز، گرافک ڈیزائینرز، یہاں تک کہ ادیب اور موسیقار تک redundant ہو جائیں گے۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ آسکر ایوارڈ جیتنے والے موسیقار اے آر رحمان کو پرانے بھارتی موسیقار ایک کمپیوٹر پروگرامر ہونے کا طعنہ دیتے تھے؟ کمپیوٹر خود بخود بھی موسیقی کمپوز کرنا سیکھ سکتا ہے۔ اور کوئی انسان اس مشین کے ساتھ کوالٹی اور quantity کے لحاظ سے مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
یہی ہمارا مستقبل ہے اور یہ مسقبل دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جتنی ترقی homo sapiens نے ٹیکنالوجی کے حوالے دو لاکھ سے 1950 تک کی تھی، اس سے کہیں زیادہ ترقی آج تک ہوئی ہے۔ اور مستقبل کے بارے میں سائینسدان کہہ رہے ہیں کہ اگلے پانچ سالوں میں یہ ترقی دوگنی ہو جائے گی۔
اس حوالے سے میری پہلی صلاح یہ ہے کہ بچوں کو سکول سسٹم سے نکال لیجئے۔ انہیں ہوم سکول کیجئے۔ انہیں ریسرچ کرنا سکھائین۔ انہیں مسائل حل کرناسکھائیں۔ انہیں انفارمیشن ڈھونڈنا اور اسے استعمال کرنا سکھائیں نہ کہ انفارمیشن یاد کرنا۔
ریاستی سکول سسٹم کسی صورت ٹیکنالوجی اور نئے علم کے ساتھ catch up نہیں کر سکتا۔ اول تو ہمارا سکول سسٹم سینکڑوں سال پرانا اور بوسیدہ ہے۔ اور اس میں تو انسان کے بچوں کو باندر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر یہ نظام سچا بھی ہو اور اسکے ساتھ ساتھ up to date بھی ہو تب بھی اسمیں کم از کم ایک سال کا lag تو لازما رہے گا۔ ایک سال پہلے نصاب میں revision کر کے دیں گے اور پوراسال اسے پڑھائیں گے۔ بات سمجھ آ رہی ہے نا؟
اسلئے اس سکول سسٹم کو فوراً خیرباد کہہ دیں۔ بچوں کی ذرا سی رہنمائی کر دیں اسکے بعد وہ خود ہی چل پڑتے ہیں۔ میرے بچے یہ سب کر رہے ہیں۔ بچوں کا علم محدود نہیں ہونا چاہئے، انکے سیکھنے کا علم رکنا نہیں چاہئے، انکا علم ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رہنا چاہئے۔