Daily Roshni News

عمرِ خوشبو: ایک اداس کہانی

عمرِ خوشبو: ایک اداس کہانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سورج ڈوبنے کا وقت تھا۔ علی حسن نے اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھے ہوئے باغ میں گھرتے ہوئے سائے دیکھے۔ اس کی عمر کے ستر بہار گزر چکے تھے، لیکن آج اس کے چہرے پر ایک عجیب سکون تھا۔ اس کی بیٹی آمنہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

“ابو، آج آپ بہت خاموش ہیں۔”

علی حسن نے مسکرا کر اپنی بیٹی کی طرف دیکھا۔ “بیٹا، میں ایک بات سوچ رہا تھا۔ انسان کو اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہی فوت ہو جانا چاہیے۔”

آمنہ حیران ہوئی۔ “ابو، یہ کیسی بات ہے؟ لمبی عمر ہی تو برکت ہے۔”

“نہیں بیٹا,” علی حسن نے ایک گہری سانس لی۔ “میں تمہیں اپنے دوست کاظم کی کہانی سناتا ہوں۔”

**کاظم کی کہانی**

کاظم میرا بچپن کا دوست تھا۔ ہم ساتھ پڑھے، ساتھ کھیلے۔ وہ زندگی سے بھرپور لڑکا تھا۔ اس کی ہنسی پورے محلے میں گونجتی تھی۔ جوانی میں وہ شہر کا بہترین کرکٹر بنا۔ اس کی شادی اس کی محبت ثانیہ سے ہوئی، اور ان کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی ہوئی۔

کاظم چالیس سال کا تھا جب اس نے اپنی زندگی کی بہترین کاروباری کامیابی حاصل کی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ خوش تھا۔ ایک دن ہم دونوں پارک میں بیٹھے تھے۔ اس نے کہا، “علی، میں چاہتا ہوں کہ میں اسی عمر میں مر جاؤں۔ ابھی تک میں جوان ہوں، صحت مند ہوں۔ میری بیٹی مجھے ایک hero کے طور پر یاد رکھے۔ میں بوڑھا ہو کر اپنے آپ کو بوجھ نہیں بنانا چاہتا۔”

میں نے اس کی بات کو مذاق سمجھا۔ “کاظم، یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟”

**ایک حادثہ، ایک ختم ہوتا خواب**

کاظم کے پچاسویں سالِ پیدائش پر اس کا خاندان اسے سپرائز دینے کے لیے ایک trip پر لے گیا۔ راستے میں ایک حادثہ ہوا۔ کار پلٹ گئی۔ سب زخمی ہوئے، لیکن کاظم کی حالت زیادہ سنگین تھی۔

ہسپتال میں، ڈاکٹروں نے بتایا کہ کاظم کی ریڑھ کی ہڈی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ زندگی بھر کے لیے وہیل چیئر پر ہو گیا۔

پہلے سال تو سب نے اس کی دیکھ بھال کی۔ اس کی بیوی ثانیہ نے دن رات ایک کر دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ، چیزیں بدلنے لگیں۔

**زوال کی داستان**

کاظم کی کاروباری سلطنت ٹوٹ گئی۔ دوست بتدریج کم ہوتے گئے۔ اس کی بیٹی، جو اسے hero سمجھتی تھی، اب اپنے باپ کی بے بسی دیکھ کر شرمندہ ہوتی تھی۔ ثانیہ کے چہرے پر تھکن کے آثار ہمیشہ کے لیے جاگزیں ہو گئے۔

ایک دن میں اس سے ملنے گیا۔ وہ اپنی وہیل چیئر پر کھڑکی کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کی پرانی کرکٹ ٹرافی تھی۔

“دیکھو علی,” اس نے کہا، آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے۔ “یہ میری زندگی کی سب سے بڑی جیت تھی۔ اب میں ہار چکا ہوں۔ میں نے کہا تھا نا کہ انسان کو اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہی مر جانا چاہیے۔ میں اب صرف ایک بوجھ ہوں۔”

میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن میں جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔

**آخری ملاقات**

کاظم ساٹھ سال کا ہوا۔ اس کی صحت تیزی سے گر رہی تھی۔ ایک سردی کی رات، اس کا فون آیا۔ “علی، تم سے ایک آخری بات کرنی ہے۔”

میں فوراً پہنچ گیا۔ وہ بستر پر پڑا تھا، اس کا چہرہ ویران تھا۔

“علی، میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ گنوا دیا۔ وہ دن جب میں چل سکتا تھا، ہنس سکتا تھا، اپنے خاندان کے لیے کچھ کر سکتا تھا۔ اب میں صرف ایک memory ہوں، جو fade ہو رہی ہے۔ اگر میں اس حادثے میں مر جاتا، تو میری بیٹی آج بھی مجھے اپنا hero سمجھتی۔ میری بیوی مجھے اپنے جوان، خوبصورت شوہر کے طور پر یاد رکھتی۔”

اس نے میرا ہاتھ تھاما۔ “اب میں صرف ایک بوجھ ہوں۔ یہ زندگی نہیں، عذاب ہے۔”

اگلے دن صبح، کاظم نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیں۔ ڈاکٹروں نے cause of death دل کا دورہ بتایا، لیکن میں جانتا تھا کہ وہ دل ٹوٹنے سے مرا تھا۔

**ختم ہوتا قصہ**

علی حسن نے اپنی کہانی ختم کی۔ آمنہ کی آنکھیں نم تھیں۔

“سمجھی بیٹا؟” علی حسن نے پوچھا۔ “کاظم کی  موت اس کے لیے رحمت تھی۔ اس نے اپنی عزت، اپنی شناخت برقرار رکھی۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہی چلا جائے، جب لوگ اسے یاد رکھیں، اس کی عزت کریں۔ بڑھاپا انسان کو اس کی انا، اس کی خودی سے محروم کر دیتا ہے۔”

آمنہ نے اپنے باپ کا ہاتھ تھاما۔ “ابو، لیکن آپ تو ہمارے لیے ہیرو ہیں۔ آپ کی ہر عمر ہماری نظر میں خوبصورت ہے۔”

علی حسن نے مسکرا کر کہا، “بیٹا، یہی فرق ہے محبت اور حقیقت میں۔ میں خوش ہوں کہ کاظم نے مجھے یہ سبق سکھایا۔”

اس رات، علی حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا:

*”زندگی لمبی ہونی چاہیے، لیکن موت بھی اتنی خوبصورت ہونی چاہیے کہ لوگ اسے یاد رکھیں۔ بہترین پھول وہ ہے جو کھلا ہوا ہی توڑ لیا جائے، نہ کہ وہ جو مرجھا کر گرے۔”*

اور پھر، اگلی صبح، علی حسن اپنی نیند میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اس کے چہرے پر ایک پر سکون مسکراہٹ تھی، جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ اپنی عمر کے بہترین حصے میں ہی جا رہا ہے۔

***

(کہانی کا اختتام)

یہ کہانی زندگی اور موت کے اس گہرے فلسفے پر روشنی ڈالتی ہے کہ کبھی کبھی وقت پر موت زندگی کو ہمیشہ کے لیے خوبصورت بنا دیتی ہے

Copied

#everyonefollowers

Loading