عورت کی عورت سے دشمنی: پردھان آنٹیوں کا سچ! –
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل کچھ سچ ایسے ہوتے ہیں جنہیں لفظوں میں ڈھالنے سے پہلے ہاتھ کانپتے ہیں، دل لرزتا ہے، اور ضمیر آنکھیں چراتا ہے۔ مگر پھر بھی، جب خامشی گناہ بن جائے اور سچ بولنا فرض، تو الفاظ تلوار بن جاتے ہیں۔ یہ تحریر بھی ایک ایسی ہی تلوار ہے, زنگ آلود سچائیوں کو کاٹنے کے لیے… ان عورتوں کے خلاف جو دوسری عورتوں کی زندگی برباد کر کے خود کو ولیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر بیٹھتی ہیں۔
ہم نے صدیوں مردوں پر ظلم کے الزامات کی بارش کی۔ جابجا نعرے مارے، بینر اٹھائے، قانون بدلوائے، تحریکیں چلائیں… مگر جب گھر کے صحن میں سچ دفن ہو، تو شہر کی عدالتیں بھی خاموش رہ جاتی ہیں۔ آج سچ یہ ہے کہ عورت کا سب سے بڑا دشمن مرد نہیں، عورت خود ہے۔
شادیوں کی منڈی میں ماؤں کے رعب و دبدبے کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ بیٹی ہو یا بیٹا، رشتہ دینے اور لینے والی اکثر ماں ہی ہوتی ہے۔ فیصلے وہ کرتی ہے، رد و قبول وہ طے کرتی ہے۔ بیٹے کی زندگی کا مستقبل بھی اس کے ہاتھ میں، اور بیٹی کی زندگی کا داؤ بھی اسی کے قبضے میں۔ مگر جب سوال کنواری آنٹیوں کا آتا ہے، تو وہاں یہ مائیں، یہ خالائیں، یہ بھابھیاں، یہ جیٹھانیاں اور نندیں ایک ایسی چڑیل میں بدل جاتی ہیں جس کے پاس “سیدھی بات” کی کوئی زبان ہی نہیں ہوتی, بس اندازے، الزامات، اور جملے۔
آپ اگر کسی ایسی کنواری آنٹی کے قریب بیٹھیں، جو تیس چالیس کے در پر بیٹھی ہو، تو اس کے چہرے پر صرف وقت کی جھریاں نہیں، اپنوں کے طعنوں، بہنوں کی منافقت، بے تحاشا نا بن سکیں “وزیٹر ساسوں” کے زہر، اور ماں کے مفاد کی جلن نقش ہوتی ہے۔
وہ لڑکی جس نے تعلیم حاصل کی، اپنے بہن بھائیوں کو پروان چڑھایا، ماں باپ کے خواب پورے کیے… آخر میں وہ ہی لڑکی رشتوں کی دوکان پر “ایکسپائر” ٹھہرائی جاتی ہے۔ اور یہ فیصلہ کرنے والی بھی کوئی مرد ذات نہیں، بلکہ کوئی قریبی عورت ہوتی ہے, اکثر ماں، کبھی بھابھی، تو کبھی نند۔
اور سب سے گھناؤنا سچ؟
یہ سب عورتیں جانتی ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں، مگر پھر بھی کرتی ہیں۔
کیونکہ ان کے دل میں کسی بھی نوجوان، خوش باش، خوبصورت، یا پڑھی لکھی لڑکی کے لیے کوئی جگہ نہیں, بس حسد، بس موازنہ، بس برتری کی خواہش۔
اگر ان کا اپنا بیٹا بیٹی کسی سادہ، خاموش، یا متوسط لڑکی لڑکے سے شادی کریں، تو یہ خواتین اسے “قابل” نہیں مانتیں، اور اگر کوئی لڑکی لڑکا خود کو اس میدان میں بہتر ثابت کرے، تو یہ اسے “بد لحاظ”، “آزاد خیال”، یا “زیادہ بولنے والی/والا” کہہ کر رد کر دیتی ہیں۔
اے میری محترم بیبیو!
ذرا آئینہ دیکھو۔
کتنے رشتے تم نے دوسروں کے لیے خراب کیے؟
کتنی لڑکیوں کو صرف اس لیے رد کیا کہ تمہیں اس کی ناک منہ فگر پسند نہیں آئے؟
یا اس کے باپ کی نوکری اور گھر محلہ وغیرہ “تمہارے معیار” کے نا تھے؟
کتنی بار تم نے کسی اپنی ہی بہو، نند، یا دیورانی کے کردار پر محض بدگمانی کی بنیاد پر کیچڑ نہیں اچھالا؟
قسم اٹھانے کو تیار ہو؟
کہ تم نے کبھی کسی لڑکی کے نصیب کے راستے میں روڑہ نہیں اٹکایا؟
نہیں،
تم ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوگی۔
تم عورتیں جب چاہو مرد کو “ظالم” لکھ دیتی ہو،
مگر کیا تمہارے اپنے گریبان میں سچائی کی کوئی کرن باقی ہے؟
دراصل مرد صرف اُس کھیل کا پیادہ ہے جس کی شطرنج تم عورتوں نے بچھائی ہے۔
بیٹے کی ماں بن کر تم بہو کے نصیب سے کھلواڑ کرتی ہو۔
بیٹی کی ماں بن کر تم اپنے معیار کی چھری سے دوسری لڑکیوں کے خواب کاٹتی ہو۔
بھابھی بن کر تم نند کا گھر برباد کرتی ہو۔
جیٹھانی بن کر دیورانی کے چہرے پر داغ تلاشتی ہو۔
ساس بن کر بہو کو نوکر سمجھتی ہو۔
اور “کنواری آنٹی” بن کر ہر اس لڑکی کی دشمن بن جاتی ہو جس کی عمر تم سے کم ہو، لیکن خواب تم سے زیادہ بڑے ہوں۔
اور پھر اس سارے فساد کے بعد جب کہیں کوئی بیٹی بدتمیز ہو جائے، یا بیٹا بغاوت پر اُتر آئے، تو مرد کو گالی دیتی، معاشرے کو کوستی، اور مذہب کو پچھاڑتی ہو۔
نہیں بی بی، اب وقت آ گیا ہے کہ تمہاری سچائی بےنقاب ہو۔
تم مردوں کو تو “toxic masculinity” کا طعنہ دیتی ہو،
لیکن تمہاری یہ “venomous femininity” کب بےنقاب ہوگی؟
تم جو اپنی بہنوں کی دشمن ہو،
تم جو دوسری عورت کی گود جلانے کی ماہر ہو،
تم جو اپنی بیٹیوں کو دوسری کی بیٹی کے سر پر تفسر شاہی کے لیے کھڑا کر کے فخر کرتی ہو…
تم اس معاشرے کا سب سے بڑا بوجھ ہو۔
اور ستم بالائے ستم یہ کہ جب مرد تمہاری ہی پالی ہوئی دوغلی نسل سے تنگ آ جائے، تو الزام اسی پر۔
تو سنو… اگر تم واقعی تبدیلی چاہتی ہو، تو تمہیں آغاز اپنے “رشتے بگاڑنے والے زہریلے دماغ” سے کرنا ہوگا۔
تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ تم لڑکی کی ماں ہو یا بیوپاری؟
رشتہ دیکھنے گئی ہو یا مقابلہ حسن؟
کسی کی بیٹی بطور بہو لینے جا رہی ہو یا غلام؟
کسی کی بیٹی کو خوشی دینا چاہتی ہو یا اپنی ناک اونچی رکھنی ہے؟
اگر تمہارے اندر ذرہ برابر بھی ایمان ہے، تو پہلے اپنی ذات کا محاسبہ کرو۔ کیونکہ اگر تم نے عورت ہو کر عورت کا ساتھ نہ دیا، تو وہ دن دور نہیں جب تمہاری اپنی بیٹیوں کی قسمت بھی انہی “آنٹیوں” کے ہاتھوں برباد ہو گی… جو آج تم جیسی زبان اور تم جیسی آنکھ لے کر بیٹھی ہیں۔
اور تب… تمہارا دکھ، تمہاری چیخ، تمہارا نوحہ سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔
کیونکہ تم نے آج دوسروں کے نوحے میں تالیاں بجائیں تھیں۔
آخر میں یہ بھی سنتی جاؤ کہ اگر واقعی عورتیں عورتوں کی دشمنی ترک کر دیں، اپنے بیٹوں کو صرف اپنی ناک اور معیار کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے انصاف و دیانت کا راستہ اپنائیں، اور شادی شدہ عورتیں تعددِ ازواج پر رونا دھونا، سسکیاں، اور جذباتی استحصال چھوڑ دیں, تو معاشرے میں ہر وہ عورت جو تیس چالیس کی دہلیز پر کنواری آنٹی کہلا رہی ہے، وہ بھی سہاگ کی چادر اوڑھ سکتی ہے، عزت و وقار سے جی سکتی ہے۔
اسلام نے تو حل دے دیا تھا: عدل کے ساتھ چار نکاح۔
مرد اگر عدل کر سکتا ہے تو کیوں نہ کرے؟
لیکن یہ
“میں نہ کھیلوں، اور تیرے کھلونے بھی توڑ دوں”
والی عورت دشمن سوچ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اور اگر تمہیں یہ اسلامی، فطری، اور انسان دوست حل پسند نہیں، تو پھر عورت ذات کے لیےفیمنسٹیانہ ٹسوے بہانا بند کرو۔ اپنی منافقتوں کا حساب دو، اور سنو, اسلام کا تمسخر اڑانے سے پہلے اپنی ذات کا ماتم کرو۔
اس بار عورت کے لیے آئینہ ہاتھ میں تھما دیا ہے… توڑنا ہے تو توڑ لو، لیکن سچ تو یہی ہے۔