Daily Roshni News

عہد یوم آزادی۔۔۔تحریر۔۔۔سید علی جیلانی

عہد یوم آزادی

تحریر۔۔۔سید علی جیلانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔سید علی جیلانی)زندہ آزادومختارقومیں ہمیشہ اپنے وطن سے کھل کرمحبت اوراپنی آزادی کاجشن بھی شایان شان طریقے سے مناتی ہیں کیونکہ آزادی کی خوشیاں منانا ان خوشیوں میں شریک ہونا ان کی رونقیں دوبالا کرنا یقینازندہ اورمحب وطن قوموں کا شیوہ ہے خالق کائنات مالکِ ارض وسماوات قرآن مجید میں بھی ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی نعمت کا تم پرحصول ہوتواس پرخوب خوشی کا اظہارکرو ایک طرف چاہے ہم اگست میں آزادی کا جشن جتنے بھی جوش و خروش جذبہ و جنون سے منا لیں مگر اِس آزادی کے حصول میں دی گئی لاکھوں قربانیوں کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا اس خواب کو تعبیر بخشنے کیلئے ہمارے قائدین نے قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، گھر بار زمین و جائیدادیں چھوڑیں ، لاکھوں مسلمانوں نے آگ و خون کے دریا عبور کئے، ماؤں نے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھلتے دیکھا، عورتوں نے اپنے سہاگ اجڑتے دیکھے اور گھر بار، عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کے نام و نشان چھوڑ کر پاکستان کیلئے عازم سفر ہوئے اور ہجرت کی بالآخر مسلمانوں کی برسوں کی محنت رنگ لائی اور 14 اگست1947 ء کو پاکستان کی صورت میں انہیں ایک آزاد ملک مل گیا پاکستان ماہ رمضان کی عظیم ساعتوں میں معرض وجود میں آیا مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن اور نسل نہیں”۔ قیام پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے جو دشمن یہ اظہار خیال کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قرار داد لاہور میں اسلام کا حوالہ موجود نہیں اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد نفاذ اسلام کا کوئی عزم و ارادہ ظاہر کیا گیا تھا وہ اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے نزدیک کلمہ توحید کے مختصر ترین الفاظ کا مفہوم کتنا وسیع تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا جب ایک ہندو مسلمان ہو گیا کیا قائد اعظم نے کلمہ توحید کے حوالہ صرف ہندوستان کا جغرافیہ تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا قائد اعظم نے اسلام کو پاکستان کا جذبہ محرکہ اور وجہ جواز بھی قرار دیا تھا ہم یوم آزادی پر جھنڈے لہرا کر 1947 ء کی آزادی کی یاد تازہ تو کر لیتے ہیں مگر اس ملک کے حالات درست نہیں کر سکے کیا قوم آزادی کا اصل مقصد حاصل کرپائی؟ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں کیا قائد کی اس اسلامی مملکت میں ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہیں ۔۔؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سر زمین پہ پچھلے 76 برسوں میں جو حکمران آئے کیا انہوں نے اپنی عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کام کیا؟ اگر ہم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور غور کریں تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا اس مملکت پہ کسی حکمران نے ”عوام ”کے نام پہ عوام پہ حق حکمرانی کو ترجیح دی کسی نے ”اسلام” کے نام پہ اپنے اقتدار کو طول دیا کسی حکمران نے”قرض اتارو،ملک سنوارو” کے نام پہ دھوکہ دیا کسی نے ”سب سے پہلے پاکستان”کی بات سنا کر اقتدار پہ شب خون مارتے ہوئے دس سال حکمرانی کی، روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے دلفریب وعدے تو عوام سے کئے جاتے رہے لیکن سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے کیا کسی حکمران نے روٹی کپڑا اور مکان فراہم کیا ؟ یہ چیزیں عوام کی دہلیز پہ پہنچانے کی بجائے غریب کے منہ سے نوالہ، بدن سے کپڑا اور سر سے چھت تک چھین لی گئی حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے ظالم اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے ہیں ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں سرمایہ دار و جاگیر دار، سردار و مولوی ، پیرو مجاہد جیسے غنڈے و درندے انسانی معاشرے کو اپنی بدترین ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ملک کے سرمایہ داروں اور غاصبوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ”میں یہاں ان لینڈ لاڈوں اور سرمایہ داروں کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اک ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں اور عوام کی مجبوریوں کا استحصال کرتے ہوئے پھلتے پھولتے ہیں یہ لوگ اس حد تک خود غرض ہیں کہ وہ کسی کی دلیل سننے کو تیار نہیں لوگوں کا استحصال کرنا ان کے رگ و پے میں بس گیا ہے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے آپ جہاں کہیں بھی دیہی علاقوں میں جائیں یہ استحصال آپ کو نظر آئے گا بخدا یہ صریحاً توہین ہے اْن جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں کے پیچھے کار فرما تھے یہ توہین ہے اْس خون کی جو پاکستان کیلئے شہدا ء کے بدن سے بہا ، یہ توہین ہے اُس نظریے کی جس کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی ہماری آزادی کے 76 سال کے بعد بھی ہمای قوم دوراہے پر کھڑی ہے جو خود کو آزاد تو سمجھتی ہے مگر اپنی سوچ کی آزادی کی ڈور غیروں کے ہاتھوں میں دے کر آزاد قوم ہونے کے جشن مناتی ہے یہ بات قا بل غور ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے اعلیُ تعلیم یافتہ لوگ ذہنی معذور کہلانے کے قابل ہیں دیکھا جائے تو کبھی ہم آزاد ہوئے ہی نہیں تھے کبھی اپنے رسم ورواج کے ہاتھوں مجبور کبھی رشوت کے لیے خود کی کو غلام بناتے ہیں تو کبھی اپنی پسندیدہ شخصیت کی محبت میں غلط اور صحیی میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں یہی وجہ

ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پرغلامی کی ہی زنجیروں میں ہی جکڑا ہوا ہے کاش ہم آزاد ہو سکتے اپنے خقوق کی جنگ خود لڑ سکتے٫مگر ممکن تو تب ہوتا ہے جب قومیں آزاد ہونا چاہیں اپنے بلند خوابوں کو تکمیل دینا چاہیں لیکن جہاں غلامی پسندیدہ مشغلہ ہو وہاں آزادی کیسے ممکن ہے مسلمانوں کی کامیابی نظریات میں پوشیدہ ہے جو ناقابل شکست ہے ہمیں اس نظریے کو عام کرنے کی ضرورت ہے جوہماری تحریک آزادی کی بنیاد بن کر دنیا کو حیران کر گیا اور وہ تھا ”دوقومی نظریہ ”کہ جو پاکستان کی اساس ہے جو کہ ہمہ گیر ہے اور مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے میری پاکستانی سیاستدانوں ، دینی مذہبی جماعتوں کے قائدین ، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب علم و دانش سے گذارش ہے کہ سب اختلافات اور باہمی تنازعات ختم کر کے کھلے دل ، بیدار مغز ، عقابی نظر ، باہمی محبت اوررواداری کے ساتھ یک جان ہو کر دشمن اور دشمن کی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ نیست و نابود کریں پھر سے نظریہ پاکستان لاالہ الاللہ محمدرسول پر متفق و متحد ہوجائیں آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم وطن عزیز کو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال و دیگر مشاہیر تحریک آزادی کے افکار و نظریات کےمطابق ایک جدید اور اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے اور ہماری آنیوالی نسلیں ہمارا نام زندہ رکھیں گی اور فخر سے کہیں گی کہ یہ ملک حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا دیا ہوا تحفہ ہے جس میں حق وسچ ، امن و امان ، انصاف بلاتفریق ، روزگار اور باعزت زندگی گزارنے کیلئے ہر کسی کو ذاتی چھت میسر ہے

Loading