غزل
ساغر نظامی
رات کے اندھیروں کو روشنی وہ کیا دے گا
اک دیا جلائے گا سو دیے بجھا دے گا
مدتیں ہوئی مجھ سے گھر چھڑا دیا میرا
کیا زمانہ اب تیرا ساتھ بھی چھڑا دے گا
سب کے نقلی چہرے ہیں سب کا ایک عالم ہے
کوئی اس زمانے میں کس کو آئنا دے گا
میں ابھی تو مجرم ہوں آپ اپنا قاتل ہوں
کانپ اٹھے گامنصف بھی جب مجھےسزا دےگا
جو دیا تعصب کا تم جلا کے آئے ہو
صبح تک نہ جانے وہ کتنے گھر جلا دے گا
جانتا ہوں میں اس کی سادگی و معصومی
وہ مرا کبوتر بھی ہاتھ سے اڑا دے گا
اس کے پاس موتی ہیں میرے پاس آنسو ہیں
میں ابھی سےکیاکہہ دوں کون کس کو کیادےگا
اس سےاب جوپوچھوں گااس کاحال اے ساغرؔ
کوئی شعر میرا ہی وہ مجھے سنا دے گا
ساغر اعظمی
 
 
															 
								 
								 
								
