غزل
شاعرہ۔۔۔ فرزانہ ساجد
جس کا جی چاہے وہ لیتا ہے نشانہ دل کا
ہم کہیں دور بنائیں گے ٹھکانہ دل کا
بیٹھے بیٹھے یونہی ہونٹوں پہ ہنسی آئی تو
آ گیا یاد کسی شوخ پہ آنا دل کا
کیا قیامت ہے کہ دو بول محبت کے عوض
لے گیا چھین کے وہ ہم سے خزانہ دل کا
آ بتائیں تجھے ہم ، رقص کسے کہتے ہیں
تو نے دیکھا ہی نہیں وجد میں آنا دل کا
ایک بے نام ملاقات میں یارو ان سے
ان نگاہوں نے کہا سارا فسانہ دل کا
بھول جانے کو ہے تیار ہر اک بات ، مگر
کوئی بھولے گا بھلا کیسے چرانا دل کا
دکھ کی وہ شام سدا یاد رہے گی ہم کو
دھڑکنوں میں وہ ہر اک درد چھپانا دل کا
فرزانہ ساجد