Daily Roshni News

غزل۔۔۔شاعر۔۔۔ اختر شیرانی

غزل

شاعر۔۔۔ اختر شیرانی

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر

پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر

قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر

یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا

چہروں سے بہار صبح گئی، آنکھوں سے فروغ شام گیا

ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا

غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں

آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں

اے عشق یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟

یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق خدارا دیکھ کہیں ، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو

وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو

ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو

اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں

آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں

کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی ، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں

چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں

آنکھوں سےجب آنسو بہتےہیں، آجائے کوئی تو خیر نہیں

ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں

ہے ظلم مگر فریاد نہ کر

اے عشق ہمیں بر باد نہ کر

دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے

امید یہاں اک وہم سی ہے‘ تسکین یہاں اک خواب سی ہے

دنیا میں خوشی کا نام نہیں‘ دنیا میں خوشی نایاب سی ہے

دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

Loading