غزل
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
اس پیکر خورشید پہ۔۔مرنا نہیں اچھا
خوں اپنا اپنے ہاتھوں سے، کرنا نہیں اچھا
ان شوخ حسینوں کو یوں، تکنا نہیں اچھا
ان آگ کے شعلوں سے، لپٹنا نہیں اچھا
دامن ہی نہیں تنہا، جلاتے ہیں جان بھی
ان حسن کے انگاروں کو، چھونا نہیں اچھا
اب تتلیاں ڈستی ہیں، اب جگنو جلاتے ہیں
یارو! انہے بھولے سے بھی، چھونا نہیں اچھا
یہ دکھنے میں شبنم ہیں، تو چھونے میں آگ ہیں
ان گل رخوں کو پھول، سمجھنا، نہیں اچھا
پتھریلی زمین میں کبھی اگتے نہیں کنول
رنگ، کاغذی پھولوں میں، بھرنا نہیں اچھا
سب ہوتے نہیں شیشہء دل کے خریدار
یوں سب کے آگے شیشہ یہ، دھرنا نہیں اچھا
اب پیار تو کیا، اس کا ہے اظہار بھی منع
دل میں خیال پیار کا، رکھنا نہیں اچھا
وعدے پہ کبھی آؤ، وعدہ کبھی نبھاؤ
ہر روز نیا وعدہ یوں، کرنا نہیں اچھا
جب اپنا ارادہ ہو تو کر لیتے ہو دلداری
دل اور کا، جب ہو تو، مکرنا نہیں اچھا
پھرتا ہے در بدر جو، پاتا نہیں قدر وہ
اک در پہ بیٹھ جاؤ تو، اٹھنا نہیں اچھا
ہے سب سے بڑا جوہر، انکار کا یہ جوہر
کم ظرفوں کے آگے یونہی، جھکنا نہیں اچھا
ہر بات پہ محاسبہ ہر بات پہ قدغن
اس شہر بے نوا میں ٹھہرنا نہیں آ چھا
مل جائے جس کو نسبت، بن جائے اس کی قسمت
نسبت اگر ملے تو، جھجھکنا نہیں اچھا
یہ عشق کا صحرا ہے، یہ دشت کربلا ہے
اس عشق کے صحرا سے، گزرنا نہیں اچھا
جو عشق کا ہے دعوی، دو سر کا تم چڑھاوا
اس دعوے سے اب پیچھے یوں،ہٹنا نہیں اچھا
آتے ہیں لینے خبریں، ڈھ جاتی ہیں جب قبریں
دل شوخ حسینوں سے، اٹکنا نہیں اچھا
گر جاؤ تم پہاڑ کی چوٹی سے شوق سے
لیکن کسی کی نظروں سے، گرنا نہیں اچھا
سب سے برا ہے سودا، سودا ضمیر کا
چھوٹی سی غرض کے لئے، بکنا نہیں اچھا
یہ خوف ہے انسان کا سب سے بڑا دشمن
اپنے ہی دل کے خوف سے، ڈرنا نہیں اچھا
ہوا کیا تجھے نظامی، کرتے ہو خود کلامی
یوں سوچ کے صحرا میں، بھٹکنا نہیں اچھا
ناصر نظامی
ایمسٹرڈم ہالینڈ