Daily Roshni News

غزل۔۔۔ زاہد وصی

غزل

ہم نے رسوائی کے الزام سے دیکھا اس کو
اور نہ رسوائی کے انجام سے دیکھا اس کو

گویا وہ چاند نہیں چاند کا وہ جھرمٹ ہے
اس کو دیکھا تو اس ابہام سے دیکھا اس کو

شب کی فرقت ہے جو ظلمت سے فقط روشنی تک
وصل شب سحر کے انجام سے دیکھا اس کو

اس کی رحمت کے سمندر سے کرم کا موتی
مجھ کو ملا تو اس انعام سے دیکھا اس کو

اپنی نظروں کو سوا اوروں سے کرکے ہم نے
اس کو دیکھا تو اس اکرام سے دیکھا اس کو

وہ مرا تھا، ہے وہ میرا، مرے دم آخر تک
ایسی تفہیم اور افہام سے دیکھا اس کو

رنگ، خوشبو، حنا، ضو اور کیا کیا اکثر
میں نے اِس نام سے اُس نام سے دیکھا اس کو

لفظ در لفظ مرے دل کے صحیفے میں وہ
اترا یوں گویا کہ الہام سے دیکھا اس کو

شمع کی لو پہ پتنگوں کا یوں جل جانا
راکھ اور خاک کے انجام سے دیکھا اس کو

دل کسی ضدی سوالی کی طرح پوچھتا ہے
صبح ہوتے ہی کہ پھر شام سے دیکھا اس کو؟

ہم نے برسوں سفرِ شوق میں تنہا زاہد
سرمئی رنگ میں تر شام سے دیکھا اس کو

~ زاہد وصی

Loading