غزل
جو تیری دید کرنے، بے چارے گئے
اک تجلی میں ہی وہ تو، مارے گئے
اپنی ہستی سے، ہم نے،۔ کنارہ کیا
اس کی نظروں سے اس کا، نظارہ کیا
نور یکتائی کے بن، سپارے گئے
عشق تو اندھا ہے، عشق تو، بہرا ہے
عشق یارو سمندر سے بھی، گہرا ہے
اس کے ڈھونڈے کہاں ہیں، کنارے گئے
عشق پر تو ہے اک سایہ ء کربلا
عشق اپنے لہو میں ہے جاتا نہا
عشق میں سر بہ سر، سر ہیں، وارے گئے
نام جس کا تیرے نام سے،جڑ گیا
قبلہ جس کا تیری سمت ہے، مڑ گیا
خاک کے ذرے سے، بن، ستارے گئے
نہ قیمت کی ہے، نہ ہے، قسمت کی بات
ہے ساری کی ساری، یہ، نسبت کی بات
جو ہیں ان کے ہوئے پا، کنارے گئے
یہ رمزیں تیری، یہ ، کنائے تیرے
یہ شگفتہ شگفتہ ،۔ پیرائے تیرے
جان لے میری، تیرے، اشارے گئے
یار کی ہستی میں، ہوتا ہے جو، فنا
اس کو ہوتی ہے حاصل نظامی، بقا
زندہ ہیں راہ ء حق میں جو، مارے گئے
ناصر نظامی