غلطی کا اعتراف
زندگی کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔
تحریر۔۔۔مصباح شیخ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔۔ غلطی کا اعتراف زندگی کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔مصباح شیخ)آپ نے دفتروں اور محفلوں میں یہ فقرہ سنا ہو گا کہ انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطی کا سرزد ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انسان غلطی اور خطا کرتا ہے۔ لیکن زیادہ خرابی اور گڑبڑ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان 1 غلطی کر کے اپنی غلطیوں کو دوسروں کے سر ڈال دے یا سرے سے اپنی غلطی تسلیم کرنے ہیسے انکار کر دے۔
انسان اپنی غلطی کا اعتراف کر کے بہت سے جھگڑوں سے بچ سکتا ہے۔ ایسے جھگڑے جو شاید اس کا بہت سا وقت ضائع کر سکتے، اسے ذہنی پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں اور اس پر مالی بوجھ بھی بن سکتے ہیں۔ محض غلطی کا اعتراف اسے کئی پریشانیوں سے نجات دلا سکتا ہے۔
فرض کیجیے آپ سڑک پر چلے جارہے ہیں جہاں بارش ہونے کے باعث بہت سا پانی کھڑا ہے۔ اچانک ایک کار والا آتا ہے اور اس کی وجہ سے اڑنے والے پانی کے چھینٹے آپ کے کپڑے خراب کر جاتے ہیں۔ آپ سخت غصے میں ہیں۔ آپ گاڑی چلانے والے کو گھورتے ہیں، آستین پڑھاتے ہیں، زیر لب بڑبڑاتے ہیں اور بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں دیکھیےصاحب آپ کو دکھائی نہیں دے رہا کہ ….“ اتنے میں گاڑی والا اتر کر آپ سے صرف اتنا کہہ دے اوہو آپ کے کپڑے خراب ہوگئے۔ واقعی غلطی میری تھی۔ معاف کیجیے گا، جلدی میں دیکھ نہ سکا کہ گڑھے میں پانی ہے۔“
ح شیخ مجھے یقین ہے کہ گاڑی والے کی غلطی اعتراف آپ کا سارا غصہ کافور کر دے گا۔ لیکن اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو پھر کیا ہو گا، یقیناً آپ اس کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
آپ غلطی کا اعتراف کرتے ہیں تو گویا اس فقرے کا فریق ثانی پر یہ اثر ہوتا ہے کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، پتھر موم بن جاتا ہے اور چڑھی ہوئی آستین اتر آتی ہے۔ ماتھے کی سلوٹیں غائب ہو جاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کدورت جس کی بنیاد رکھی جانےرہتے ہیں۔
اس کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔ انسانوں کے والی ہے مابین نفرت اور رنج جنم نہیں لیتا اور وہ پر سکون اور خوش اگر ساری دنیا کے انسان صرف یہ ایک بات اپنا لیں کہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیں گے تو یقین کیجیے دنیا میں کئی مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے ، بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں، بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے اور بہت سی دشمنیاں دوستیوں میں بدل جائیں۔ انسان غلطی کرتا ہے تو بہر صورت اس غلطی کے اثرات کہیں نہ کہیں ضرور ہوتے ہیں۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی غلطی کا خمیازہ خود ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر غلطی کا نقصان غلطی کرنے والے کی ذات تک ہے تو بھی اسے احسن نہیں کہا جاسکتا۔ اگر اس غلطی کے نتیجے میں دوسروں کی ذات، ان کے مفادات یا ان کے جذبات کو نقصان پہنچا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے منفی اثرات زیادہ ہیں۔ تاہم ایسی صورت میں اس کا اعتراف اگر چہ نقصانات کی تلافی تو نہیں کر سکتا لیکن دوسروں میں خندہ پیشانی سے نقصانات برداشت کرنے کا حوصلہ ضرور پیدا کر دیتا ہے۔
غلطی کو تسلیم کرنے میں جہاں نفرتوں، کدورتوں اور جھگڑوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے وہاں اس کا ایک اہم روحانی فائدہ بھی ہے۔ آپ کو اس کا تجربہ ہوا ہو گا کہ جب آپ کوئی غلطی کرتے ہیں تو ساتھ ہی آپ کے دل و دماغ پر ایک بوجھ سا طاری ہو جاتا ہے۔ اس بوجھ کو ضمیر کی خلش بھی کہا جاتا ہے لیکن جو نہی آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا آپ کے دل سے گویا یہ بوجھ ہٹ گیا۔ آپ کی طبیعت بحال ہو گئی اور آپ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے۔ وہ کیک جو آپ کے ذہن کو ہفتوں، مہینوں پریشان کر سکتی تھی، آپ نے غلطی تسلیم کر کے اس سے نجات حاصل کر لی۔
در حقیقت سوچ کے یہ سارے پہلو منفی اور کمزور ہیں۔ انسان کی عظمت غلطی تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ جو شخص اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے وہ اپنی شخصیت کی مضبوطی کا اظہار کرتا ہے۔
بشکریہ ماہنا مہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2015