پروفیسر علیم کی گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔اب تک کئی مکینک اس پر سر کھپا چکے تھے،مگر نقص کوئی نہیں پکڑ سکا تھا۔علیم صاحب کے دوست پروفیسر صدیق نے انھیں اپنے بہنوئی کے گیراج کا پتادے کر کہا تھا کہ وہاں مسئلہ حل ہوجائے گا ۔
پروفیسر علیم کی گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔اب تک کئی مکینک اس پر سر کھپا چکے تھے،مگر نقص کوئی نہیں پکڑ سکا تھا۔علیم صاحب کے دوست پروفیسر صدیق نے انھیں اپنے بہنوئی کے گیراج کا پتادے کر کہا تھا کہ وہاں مسئلہ حل ہوجائے گا ۔حال ہی میں ان کا تبادلہ اس شہر میں ہوا تھا۔راستوں سے نا واقفیت کی وجہ سے گیراج تلاش کرنے میں انھیں دقت پیش آئی۔
خدا خدا کرکے وہ اس تک پہنچ ہی گئے۔گاڑی ایک طرف لگا کر انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔وہاں بہت ساری گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہر گاڑی پرکام ہو رہا تھا۔
پروفیسر کچھ دیر تو تذبذب کے عالم میں کھڑے رہے پھرجب کسی نے ان پر توجہ نہیں دی تو قریب کھڑے ایک جوان مکینک کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ،جو ایک عجیب سے نمونے کی گاڑی کا بونٹ اُٹھائے بہت انہماک سے اپنا کام کررہا تھا۔
”ارے میاں!ہمیں گاڑی ٹھیک کرانی ہے۔“
اس مکینک نے ان پر سر سری نگاہ ڈالی اور ایک کمرے کی طرف اشارہ کرکے بولا:”دفتر سے پرچی بنالیں۔کوئی مکینک دستیاب ہوا تو ابھی آپ کے ساتھ بھجوادیں گے ،ورنہ․․․․سر!آپ علیم صاحب ہیں؟“مکینک نے بات ادھوری چھوڑ کر انھیں غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
پروفیسر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
”سر!میں آپ کا نالائق طالب علم نعمان ہوں۔“وہ مسرت سے بولا۔
اگلے ہی لمحے وہ اسے پہچان چکے تھے۔وہ اسے بھول بھی کیسے سکتے تھے۔پروفیسر صاحب کی نگاہوں کے
سامنے بارہ سال قبل پیش آنے والا ایک تکلیف دہ واقعہ گھوم گیا۔انھوں نے تاسف سے اسے دیکھا۔نعمان نے اپنا کام وہیں چھو ڑا اور پروفیسر صاحب کی گاڑی کے پاس آکھڑا ہوا۔اسے پروفیسر صاحب کی گاڑی کا بونٹ کھولتے دیکھ کر ایک دومکینک دوڑے چلے آئے،مگر اس نے دونوں کو واپس بھیج دیا۔
نعمان نے پروفیسر صاحب کو قریب ہی ایک کمرے میں بٹھادیا۔ایک غلط فہمی کی وجہ سے نعمان کو کالج سے نکال دیا گیا۔اب اتنے برسوں بعد نعمان سے پروفیسر علیم کی اچانک ملاقات ایسے حالات میں ہوئی تھی کہ منھ موڑ کر جابھی نہیں سکتے تھے۔وہ اسے ایک کامیاب انسان بنانا چاہتے تھے۔پروفیسر صاحب دیکھ رہے تھے کہ نعمان بڑی محویت سے ان کی گاڑی کو ٹھیک کرنے میں لگا ہوا تھا۔
ایک مکینک بھی اس کی مدد کو چلا آیا تھا۔
”چلو ،کوئی بات نہیں اب وہ رزق حلال کما رہا ہے،کسی غلط صحبت کا شکار تو نہیں ہوا۔“انھوں نے زیر لب کہا۔کچھ دیر بعد نعمان ان کی طر ف آیا۔
”سر!گاڑی میں کچھ کام رہ گیا ہے۔اسے میرا ساتھی دیکھ لے گا۔آج آپ میرے مہمان ہیں۔کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔“اس نے بہت اپنائیت سے کہا۔
علیم صاحب نے اسے ٹالنے کی بہت کوشش کی،مگر وہ احترام سے انھیں پکڑ کر ایک صاف ستھرے کمرے میں لے آیا۔
جب وہ واش روم سے ہاتھ منھ دھو کر اور کپڑے تبدیل کرکے آیا تو مکینک بالکل نہیں لگ رہا تھا۔
”تم یہاں کام کرتے ہو؟“اس کے بدلے ہوئے حلیے کو دیکھ کر علیم صاحب نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
”سر!یہ گیراج ابا جی کا ہے۔میں کبھی کبھار چکر لگا لیتا ہوں۔“یہ کہہ کر مسکرایا اور انٹر کام پر کسی کو کھانا لانے
کو کہا۔
کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی ،مگر ماضی کی کسی بات کا ذکر نہیں ہوا۔
نعمان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے علیم صاحب کے دل پر جمی کدورت کسی حد تک دور ہو گئی۔گاڑی کاکام مکمل ہونے کے بعد
علیم صاحب نے جب اُجرت پوچھی تو نعمان نے صاف لفظوں میں یہ کہتے ہوئے پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ یہ گیراج ہمارا اپنا ہے۔میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آپ سے پیسے لوں۔اس نے علیم صاحب کی ایک نہ چلنے دی اور انھیں گاڑی میں بٹھا کر ہی دم لیا۔
اگلے دن پروفیسر صدیقی نے انھیں فون کیا:”ارے صاحب!آپ تو وہ شخص نکلے،جس کا تذکرہ برسوں سے ہمارے خاندان میں ہوتا رہا ہے۔“انھوں نے جوش سے کہا۔
علیم صاحب یہ سن کر حیران ہوئے:”میں سمجھا نہیں۔“
”میرا بھانجا نعمان کبھی آپ کا شاگرد رہا ہے؟“انھوں نے تصدیق چاہی۔
علیم صاحب نے”ہاں“میں جواب دیا۔
”آپ یوں کریں کہ شام کو میرے گھر آئیں۔
“صدیقی صاحب نے کہا۔
علیم صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہامی بھرلی۔
شام کو علیم صاحب پروفیسر صدیقی کے پاس موجود تھے۔جب نعمان کا ذکر آیا تو علیم صاحب نے بنا لگی لپٹی رکھے صدیقی صاحب کو بتایا کہ اس لڑکے کو انھوں نے زمین سے اُٹھا کر عرش پر پہنچانا چاہا،مگر اس نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔“
صدیقی صاحب کو مایوس دیکھ کر علیم صاحب نے بات بدلتے ہوئے کہا:”صدیقی!تمھارا بھانجا مکینک بہت اچھا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ اس نے یہ ہنر سیکھ لیا اور اب اپنے والد کا گیراج سنبھال لے گا۔“
یہ سن کر پروفیسر صدیقی مسکرادیے اور بولے:”مگر وہ تو کچھ اور کرنا چاہتاہے۔“
”کیا کرنا چاہ رہا ہے؟“علیم صاحب نے تجسس سے پوچھا۔
”ابھی آئے گا خود پوچھ لینا۔“پروفیسر صدیقی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
تھو ڑی دیر بعد نعمان بھی وہاں آگیا۔
اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبا تھا۔علیم صاحب کو وہاں بیٹھا دیکھ کر وہ
کھل اٹھا۔
”سر!جب انکل نے مجھے بتایا کہ آپ آئے ہوئے ہیں تو میں دوڑا آیا۔میری خوش قسمتی ملا حظہ کریں کل آپ سے ملاقات ہوئی اور آج اٹامک انرجی کمیشن سے بلاواآگیا۔“اس نے اپنے استاد کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔
علیم صاحب ہکا بکا اسے دیکھے جارہے تھے۔
پروفیسر صدیقی نے کھنکار کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بولے:”آپ کا شاگرد امریکا سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر آیا ہے۔وہاں بہت سے اداروں کی جانب سے اسے کام کی پیش کش ہوئی ،مگر یہ اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔شکر ہے اسے اٹامک والوں نے بلا لیا،ورنہ یہ تو آج کل دن بھر ایک نئی قسم کی گاڑی بنانے میں جتے رہتے ہیں۔“صدیقی صاحب نے باتوں باتوں میں اس کے گیراج میں کام کرنے کی وجہ بتا دی۔
علیم صاحب کو بھی وہ عجیب وغریب گاڑی یاد آگئی۔
”ماموں !آج اسی گاڑی میں آپ کے گھر آیاہوں۔“نعمان نے مسکرا کر صدیقی صاحب سے کہا۔نعمان کے جانے کے بعد صدیقی صاحب نے حقائق سے پردہ اُٹھایا:”اس دن جب نعمان ہال کے پاس سے گزررہا تھا توکسی لڑکے نے اس پر جملے کسے ۔یہاں تک بات رہتی تو نعمان برداشت کر لیتا،مگر جب اس نے آپ کا مذاق اُڑایا تو نعمان سے برداشت نہیں ہوا اور وہ اس لڑکے پر پل پڑا۔
اس دوران انگریزی کے استاد نے انھیں چھڑانے کی کوشش کی تو ان دونوں میں سے کسی کا ہاتھ ان کے چہرے پر جالگا اور خون بہنے لگا۔نعمان کو اس وقت صدمہ پہنچا جب سب کی ہمدردی اس لڑکے کے ساتھ ہو گئی۔نعمان کا ساتھ دینے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔آپ کی بلا تحقیق سفارش پر اسے ہنگامہ کرنے کے جرم میں کالج سے نکال دیا گیا۔اس دن کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔اپنے اندر قابلیت پیدا کرنے کے لیے اس نے دن رات ایک کر دیے تھے۔
یہ سب سننے کے بعد علیم صاحب بہت خوش بھی تھے اور ایک غلط فہمی کی وجہ سے افسردگی نے بھی انھیں گھیرا ہوا تھا۔