Daily Roshni News

غیرتِ ایماں۔۔۔ تحریر۔۔۔عیشا صائمہ

غیرتِ ایماں

تحریر۔۔۔عیشا صائمہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ غیرتِ ایماں۔۔۔ تحریر۔۔۔عیشا صائمہ(“غلام مصطفی کہاں کھو جاتے ہو بیٹھے بیٹھے؟”  اماں نے اسے یوں سوچوں میں گم دیکھا تو بولیں :

اماں مجھے اپنے پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت پیار ہے کیا میں ان سے مل سکتا ہوں؟

اماں نے آکے اسے گلے سے لگایا  اور کہنے لگیں :

“جب ہم ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو ہماری ملاقات ان سے جنت میں ضرور ہو گی -“

غلام  مصطفی خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتے ہوئے بولا “لیکن اماں میں پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت جلد ملنا چاہتا ہوں مجھے ہر وقت بے چینی لگی رہتی ہے -میں ان کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا -“

” غلام مصطفی تو کہیں پھر کسی بچے سے لڑ کے تو نہیں آیا” اما‍ں فکر مند لہجے میں بولیں –

غلام مصطفی الجھتے ہوئے کہنے لگا” اماں وہ ان پہ درود و سلام باوضو ہو کر

نہیں پڑھ رہا تھا اسی لئے میں نے اسے مارا کہ ان جیسی ہستی دنیا میں ہے ہی نہیں وہ رحمت للعالمین ہیں تو ان کی بارگاہ میں حاضری کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے -“

اماں نے کھانا اس کے سامنے رکھا اور پیار سے سمجھانے لگیں “بیٹا پہلے پیار سے بات کی جاتی ہے تم اسے آرام سے بتاتے ہو سکتا ہے اسے یہ بات معلوم ہی نہ ہو ہر گھر کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں “

لیکن وہ تو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اسے یہ سب معلوم ہونا چاہیے تھا –

تم کل اسے بتا دینا آئندہ لڑائی نہیں کرنی کیونکہ پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لڑنا پسند نہیں ہے –

غلام مصطفی نے اماں کی بات کو سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا-اور دوسرے دن جا کر سعد سے بات کی جس پر وہ  بہت شرمندہ ہوا اور غلام مصطفی سے معافی مانگی یوں ان دونوں کی دوستی ہوگئ -وقت گزرتا رہا غلام مصطفی نے خود کو مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیا –

اور آج جب وہ جوانی کی دہلیز پار کر چکا تھا تب بھی وہ اپنے پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ کی شان میں گستاخی برداشت نہ کرتا بلکہ لڑنے  مرنے پہ تیار ہو جاتا –

وہ کسی ہوٹل میں سعد کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک ایک خبر نے اس، کے ہوش اڑا دیئے ان کے علاقے کی  ایک  شخصیت نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جس پر غلام مصطفیٰ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتارے گا –

سعد اسے سمجھا رہا تھا “غلام مصطفی تمہیں قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں تم انتظار کرو حکومت کوئی نہ کوئی فیصلہ سنائے گی لیکن دو دن کے بعد غلام مصطفی نے چوہدری کے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور جب اس نے دیکھا وہ باہر نکلنے لگا، ہے غلام مصطفی نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے گارڈ سے گن لے کر تین چار گولیاں چوہدری کے سینے میں اتاریں اور جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسے موت کے گھاٹ اتار چکا ہے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا – “

غلام مصطفی کے یوں اسے قتل کرنے پر  عوام سڑکوں پر اس کی حمایت میں نکل آئی غلام مصطفی کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے   پھانسی کی سزا سنا دی گئ – جس پر لوگوں نے بہت احتجاج کیا لیکن پھر بھی اس کی سزا کو بر قرار رکھا گیا –

غلام مصطفی جتنے دن جیل رہا قرآن پاک کی تلاوت کرتا اور اونچی اونچی آواز میں نعتیں پڑھتا تھا   جب اسے  پھانسی کے لیے لے جایا جا رہا تھا اس کے چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا بلکہ وہ خوش تھا کہ وہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات کرے گا –

اسے پھانسی دے دی گئ لیکن مرنے کے بعد اس کے چہرے پر وہ ہی سکون اور خوشی تھی جو کسی بھی غلام کو اپنے پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات کے وقت ہو، سکتی ہے –

آج اس کی ماں کو اپنے بیٹے پر فخر تھا کہ اس نے پیارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور پورا گاؤں  اس سپوت کی جرات کو سلام پیش کر رہا تھا –

Loading