Daily Roshni News

غیرت مند بھائی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انیلا ہمارے گاؤں کی الہڑ دوشیزہ تھی۔ سولہ برس کی عمر میں وہ ایک نوجوان شہزاد کو دیوانہ وار چاہنے لگی۔ ماں کو سن گن ہوئی تو اس نے سمجھایا کہ اس آگ کے کھیل سے باز آ، ورنہ جان سے جائے گی۔ انیلا کی عمر ایسی نہ تھی کہ نصیحتوں پر عمل کرتی۔ وہ تو شہزاد کے لیے آگ میں کودنے پر بھی تیار تھی۔ شہزاد میندار کے منشی کالڑکا تھا اور اتنا دلیر نہ تھا جتنا انیلا تھی۔ منشی نے جب دیکھا کہ معاملہ بڑھتا جا رہا ہے تو اس نے لڑکے کو اپنے بھائی کے گھر بھجوا دیا جو شہر میں رہتا تھا۔انیلا کو شہزاد کے جانے کا بہت ملال ہوا، وہ اداس رہنے لگی۔

ماں نے موقعہ جانا اور شوہر سے کہا، لڑکی جوان ہو گئی ہے، اس کا رشتہ طے کر دو۔ بیٹی کی شادی جلدی ہو جانی چاہیے کیونکہ زمیندار ٹھیک آدمی نہیں ہے۔ اگر کسی دن اس نے ہماری بیٹی کی قسمت خود طے کرنے کی ٹھان لی، تو اس کی نیت میں فتور آنے میں دیر نہ لگے گی۔ کہیں ہمیں اپنی عزت اور لڑکی سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائے۔ بیوی کی بات فتح محمد کے دل کو لگی۔ اس نے فوراً اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا۔ انہی دنوں شہر سے ایک آڑھتی نبی بخش اجناس کا مول تول کرنے آیا ہوا تھا۔ یہ عمر رسیدہ آدمی تھا، جس کی پہلی بیوی کچھ عرصہ پہلے مر گئی تھی اور وہ دوسری شادی گاؤں میں کرنا چاہتا تھا۔

 جب وہ اجناس اٹھوانے آیا، تو اس کی نظر انیلا پر پڑی۔ پہلی نظر ہی میں وہ اس کو بھا گئی۔ اس نے اس کے بھائیوں سے رشتہ مانگا اور بدلے میں چالیس ہزار روپے نقد دینے کی پیشکش بھی کی۔ یوں انیلا بی بی کی زندگی کا سودا ہو گیا۔ جب بھی انیلا کو پتہ چلا تو اسے بہت دکھ ہوا، مگر وہ مجبور تھی، چپ کے لوٹ، چپ رہی۔ ادھر شہزاد کے لوٹ آنے کی امید بھی جاتی رہی۔ گاؤں میں لڑکیاں شادی سے انکار کر دیں تب بھی وہی ہوتا ہے جو ان کے باپ بھائی چاہیں۔ انیلا کا نکاح نبی بخش سے اتنی خاموشی سے ہوا کہ زمیندار کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، کیونکہ وہ اپنے گاؤں کی لڑکیوں کو کسی غیر جگہ بیاہنے کا سخت مخالف تھا۔ اگر کوئی شخص گاؤں سے باہر کسی غیر برادری میں اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا، تو اسے زمیندار سے مشورہ کرنا پڑتا تھا۔ اسی لیے فتح محمد اور اس کے بیٹوں نے یہی مناسب سمجھا کہ زمیندار سے صلاح نہ لی جائے، ورنہ وہ ان کو آڑھتی کے ساتھ بیٹی بیاہنے کی اجازت کبھی نہ دے گا۔ نکاح کے بعد انیلا بے چین رہنے لگی۔ وہ رخصتی سے قبل ہی بھاگ جانا چاہتی تھی کیونکہ اسے نبی بخش بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ وہ اتنا عمر رسیدہ تھا کہ اس کے باپ سے بھی دو سال بڑا لگتا تھا۔

وہ شاید اس کی عمر سے سمجھوتہ کر لیتی اگر اسے شہزاد کی یاد اس قدر نہ ستاتی۔ جس دن اسے سنا کہ نبی بخش اسے رخصت کر کے لے جانے والا ہے، اس نے راتوں رات گھر سے بھاگ نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ جب سب گھر والے سو گئے تو وہ غلہ منڈی جا کر ایک ٹرک میں رکھی بوریوں کے پیچھے چھپ گئی۔ ان ٹرکوں پر دن بھر سامان لوڈ کیا جاتا تھا اور پھر وہ رات کو سفر پر روانہ ہو جاتے تھے۔انیلا اپنے بھائی کے کپڑے پہن کر نکلی تھی۔ سر پر پگڑی باندھ کر اس نے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔ عموماً دیہاتی مرد رات کو سفر کرتے ہوئے سرد ہوا سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ جب وہ مردانہ لباس پہنے، پگڑی کا ڈھانڈھا باندھ کر غلہ منڈی پہنچی، تب وہاں دو ٹرک کھڑے تھے جن پر لوڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ مزدور اپنا کام کر کے جا چکے تھے اور ڈرائیور ابھی آنا تھا۔ ان ٹرکوں کو رات دس بجے چلنا تھا۔ انیلا کا لباس کسی مزدور لڑکے جیسا تھا۔ اگر اسے ٹرک پر چڑھتے کسی نے دیکھا بھی ہو، تو اسے مزدور لڑکا ہی سمجھا ہوگا۔

 جب ٹرک بہاولپور پہنچا تو ایک لڑکے نے اسے دیکھ لیا جو اس ٹرک پر رکھوالی کے لیے ساتھ چلتا تھا۔ ڈرائیور اس وقت ہوٹل پر چائے پینے کے لیے اترا ہوا تھا۔ لڑکا بوریوں کی طرف گیا تو اسے اوٹ میں ایک سایہ سا نظر آیا۔ اس نے پوچھا، ادھر کون ہے؟ انیلا ڈر کر دیکھنے لگی۔ تب لڑکے نے اس کے منہ پر ٹارچ کی روشنی ڈالی تو دیکھا کہ سامنے ایک چاند سا چہرہ چمک رہا تھا۔ انیلا نے جلدی سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ رکھوالا لڑکا قریب آگیا اور پوچھا، کون ہو تم اور یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ تب انیلا نے ہاتھ جوڑ دیے تو وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور بولا، اب سچ سچ بتا دو۔ انیلا بولی، بتاتی ہوں مگر ہاتھ جوڑتی ہوں کہ میرے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔ پھر اس نے اپنا سارا احوال بتا دیا اور رو رو کر بھیگ مانگنے لگی کہ مجھ پر رحم کرو اور مجھے تم کسی محفوظ جگہ پہنچا دو۔ لڑکا ڈرائیور کے لوٹ آنے سے پہلے اسے لے کر اترا اور اپنے مالک کے گھر آگیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/08/ghyrat-mand-bhai.html

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

#urduline #urdushayari #urdupoetry #quotes #kahani #kahaniyan #stories #urduquotes #Qissa #quoteoftheday #urduadab #urdu #everyone

Loading