فادر آف لاہور رائے بہادر سر گنگا رام
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )خواجہ حسن نظامی نے کہا کہ تھا کہ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ایک آدمی اپنی زندگی کسی دوسرے کو دے دے تو میں پہلا شخص ہوتا جو اپنی زندگی کے قیمتی سال سر گنگا رام کو دے دیتا تاکہ وہ طویل عمر تک زندہ رہیں اور بھارت کی مجبور خواتین کی فلاح کے لیے خدمات انجام دیتے رہیں۔سر گنگا رام اپنے وقت کے ایک معروف انسان دوست، زرعی ماہر و معروف سول انجنیئر کی گزشتہ کل 173ویں سالگرہ تھی 13اپریل، 1851میں صوبہ پنجاب کے ایک شہر جڑانوالا میں پیدا ہوئے۔ باپ دولت رام نے اپنے بیٹے کا نام گنگا رام رکھا۔ سر گنگا رام کے آباؤ اجداد کا تعلق اترپردیش کے ضلع مظفر نگر سے تھا۔ مگر انیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے لگ بھگ وہ ستلج پار کر کے صوبہ پنجاب میں آباد ہوگئے تھے۔ گنگا رام نے امرتسر سے میٹرک کیا، 1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1873 میں گولڈ میڈل کے ساتھ انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا۔ پھر تھامسن کالج آف سول انجینرنگ میں تعلیم حاصل کی جو اب انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سر گنگا رام کی خدمات :
وہ ایک کہنہ مشق اور ذہین انجینئر، قابل زرعی سائنس دان اور سماجی کارکن تھے۔ ان کے شہر لاہور پر بے شمار احسانات ہیں۔ان کی بنائی ہوئی عمارتیں لاہور میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سی کالج، میواسکول آف آرٹس، میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں۔ 1921ء میں 550 بستروں کا سرگنگارام ہسپتال تعمیرکروایا، ڈی اے وی کالج (موجودہ اسلامیہ کالج سول لائنز)، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم سرگنگارام گرلزاسکول (موجودہ لاہور کالج فارویمن)، ادارہ بحالی معذوراں الغرض اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے گئے۔ دیگر چند دیگر عمارتیں اور بے شمار فلاحی ادارے آج بھی سر گنگا رام کی عظمت کی گواہی دے رہی ہیں۔ انھوں نے گنگا رام ٹرسٹ کا آغاز کیا۔ سر گنگارام نے گنگاپور میں ’کوآپریٹیو فارمنگ سوسائٹی‘ کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے لیے 56 ایکڑ زرخیز زمین عطیہ کی تھی۔ آج گنگاپور میں اس کی آمدنی سے عوام کی فلاح و بہبود کے ترقياتي کام کیے جا رہے ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔ انھوں نے پنجاب بھر میں زمین کی سیرابی کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلی خشک زمینیں سونا اگلنے لگیں۔
ضلع لائلپور (فیصل آباد) میں پانچ سو ایکڑ زمین خرید کر ایک گاؤں آباد کیا جسے گنگا پور کا نام دیا گیا۔ گنگا پور میں ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے گئے، فصلوں، سبزیوں اور چارہ کی پیداوار کے لیے آب و ہوا کے مطابق مقامی اور غیر ملکی بیجوں کے معیار پر خصوصی توجہ دی گئی۔
انھوں نے متعدد زرعی ممالک کے دورے کیے اور انگریزی، فرانسیسی اور کینیڈین گندم ایک ساتھ کاشت کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ سبزیوں اور پھلوں کے بیجوں کی پیوندکاری سے ان کی کاشت میں بھی اضافہ ممکن ہوا اور کچھ نئے قسم کے پھل بھی وجود میں آئے۔
سر گنگا رام بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کی ضرورت کے قائل تھے۔ اس وقت ہندوستان بھر میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بیوہ عورتیں موجود تھیں۔ انھوں نے ان مقاصد کے لیے ایک خیراتی ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا اور اسے پہلے پنجاب ویڈو ر میرج ایسوسی ایشن کا نام دیا جس کا دائرہ بہت جلد ہندوستان بھر میں وسیع ہوگیا اور اسے پنجاب کے بجائے آل انڈیا وڈو ری میرج ایسوسی ایشن کا نام دے دیا گیا۔
اس ایسوسی ایشن کے ذریعے چند ہی برس میں ہزارہا بیواؤں کی شادیاں ہوئیں اور وہ ازسرنو زندگی گزارنے لگیں۔ جن بیوہ عورتوں کی شادی نہ ہوپاتی تھی ان کی فلاح کے لیے گنگا رام نے وڈو ہوم سکیم پیش کی جہاں انہیں تربیت دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جاتا تھا۔
اس تسلسل میں انھوں نے لاہور میں ایک انڈسٹریل سکول بھی قائم کیا اور یہ اہتمام بھی کیا کہ اس انڈسٹریل سکول کے تحت تیار ہونے والی مصنوعات گنگا رام ٹرسٹ کے زیر اہتمام انڈسٹریل شاپ کے ذریعے فروخت کی جائیں۔
1922 میں گنگا رام کو سر کا خطاب عطا ہوا۔ اگلے برس انھوں نے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا۔
1921 میں سر گنگا رام نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔
سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہم تصور کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصوبہ پیش کیا۔ جب یہ منصوبہ حکومت تک پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس موجود ہے۔
1925 میں سر گنگا رام نے دیوان کھیم چند کی مدد سے ماڈل ٹاؤن لاہور کی رہائشی سکیم کی بنیاد ڈالی جو اس وقت بھی لاہور کی بہترین رہائشی کالونی سمجھی جاتی ہے۔ اسی برس وہ امپیریل بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدے پر فائز کیے گئے۔
1927 میں سر گنگا رام رائے ایگری کلچرل کمیشن کے ممبر کے طور پر انگلستان گئے ہوئے تھے جہاں دن رات کام کرنے کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور بالآخر 10 جولائی 1927 کو لندن ہی میں ان کی وفات ہوگئی۔ ان کی آخری رسومات لندن ہی میں ادا کی گئیں۔
گنگا رام کی راکھ ہندوستان لائی گئی جہاں آدھی راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی اور باقی آدھی راکھ لاہور میںراوی روڈ پر معذور مردوں اور عمر رسیدہ عورتوں کے لیے قائم کیے گئے آشرموں کے درمیان ایک میدان میں دفن کردی گئی، جہاں سنگ مرمر کی ایک سمادھی تعمیر کی گئی۔ یہ سمادھی آج بھی موجود ہے اور اہل لاہور کو گنگا رام کی یاد دلاتی ہے۔
ادھر 1951 میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں سر گنگا رام کی یاد میں ایک ہسپتال کا قیام عمل میں آیا جس کا سنگ بنیاد وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے رکھا۔
سر گنگا رام کے ذہن میں سماجی خدمات کا خیال اس ایک حادثہ کی وجہ کر ایا۔ وہ ایک دن ایک کنویں میں گر پڑے، اتفاقاً کسی شخص نے انھیں کنویں میں گرتا ہوا دیکھ لیا اور یوں
انھیں بچالیا گیا۔ اس حادثہ کے بعد سے گنگا رام کے ذہن میں الہامی اشارہ آیا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بچایا گیا ہے اور انھیں دنیا میں کوئی اہم کام سر انجام دینا ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں دو ہی شخصیات ایسی ملیں گی جو اپنے سماجی خدمات میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک سر گنگا رام اور دوسرے عبدالستار ایدھی۔
1925ء میں انھیں امپیریل بینک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا۔ سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رُڑکی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فاؤنڈیشن لاہور اُن کے تعمیری اور خدماتی ورثے کی دیگر یادگاریں ہیں۔ ان کے اعزازات میں رائے بہادر اور سر کے خطاب کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر (MV0) اور کوم پینیئن آف دی انڈین ایمپائر (CIE) کے اعزازات شامل ہیں۔
ان کی اس انسانی و سماجی خدمات کا ہم نے کیا صلہ دیا۔ “ہجوم نے رخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منھ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا، چنانچہ مرہم پٹی کے لیے اسے سر گنگا رام ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔”
10 جولائی 1927ء کو وہ اپنی لندن کی رہائش گاہ میں وفات پا گئے۔ ان کا جسم ہندو رسوم کے مطابق راکھ کر دیا گیا، جس میں سے نصف راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی، جبکہ باقی ماندہ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ان کی سمادھی مین دفن ہے۔