قسط نمبر 9
مسیح الدجال
دجال کون ؟؟
تحریر: ڈاکٹر عبدالرؤف
تاریخ: یکم اگست 2022
دجال احادیث کی نظر میں ۔
پچھلی قسط میں ہم نے دجال کے متعلق فتن کے باب سے وہ چند احادیث مثال کے طور پر نقل کی تھیں جو سند اور متن کے اعتبار سے صحیح ،اور حسن درجے کی تھیں ۔ اور اگر کہیں کوئی سقم پایا بھی جاتا تھا تو وہ اس قدر کم تھا کہ یہ احادیث محدثین کے ہاں ہمیشہ قابل اعتبار رہیں ۔ ھم نے یہ چند احادیث اس لیے بیان کیں کہ ان کے متن میں تضاد وارد ہوا تھا ۔ اس کی حکمتیں اور توجیہات بھی بیان کی گئیں ۔قسط نمبر آٹھ ملاحظہ فرمائیں ۔
اب اس قسط نمبر 9 اور آئیندہ کی چند اقساط میں ہم مستند ذخیرہ احادیث کی کچھ مزید قابل اعتبار احادیث کا بیان بھی کریں گے ۔ تاکہ اس فتنے کا درست محل متعین کرنے اور سمجھنے میں مدد مل سکے ۔
قاری حضرات اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ بعض روایات بہت طویل ہیں ۔ اگر ان کا عربی متن بھی شامل کیا جائے تو تحریر بہت طویل ہو جاتی ہے اور اخبار کی ایک مختصر یومیہ قسط اس طوالت کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ لہذا ان طویل روایات کا صرف مختصر عربی اشارہ ، اردو ترجمہ لکھنے اور حوالہ درج کرنے پر اکتفاء کیا جائے گا ۔ جبکہ چھوٹی احادیث کا عربی متن درج کر دیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلابِيَّ يَقُولُ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الدَّجَّالَ،الْغَدَاةَ، فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: ” مَا شَأْنُكُمْ؟ ” فَقُلْنَا: يَارَسُولَ اللَّهِ! ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ، فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: ” غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ: إِنْ يَخْرُجْ، وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ، وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ قَائِمَةٌ، كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ
۔۔۔۔الی آخر۔۔۔۔۔۔ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ “۔
ترجمہ :
حضرت عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے ابو نے بتایا کہ انہوں نے حضرت نواس بن سمعان کلا بی رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے دجا ل کا ذکر فرمایا تو اس میں آپ نے کبھی بہت ہلکا لہجہ استعمال کیا اور کبھی زوردار انداز میں کہا، آپ کے اس بیان سے ہم نے محسوس کیا کہ جیسے وہ یہیں کہیں قریب انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہما رے چہروں پرخو ف کے آثار دیکھے تو فرمایا: ”تم لوگوں کو کیا ہوا ؟ ” ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول کی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے صبح کے وقت جو دجا ل کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما اور پھر زوردار لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ وہ انہی کھجوروں کے درختو ں میں کہیں چھپا ہواہے، آپ ﷺ نے فرمایا:” مجھے تم لو گوں پر دجا ل کے علاوہ دوسری چیزوں کا زیا دہ ڈر ہے، کیونکہ دجال تو اگر میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی طرف سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کر ے گا، اللہ تعالی ہر مسلمان پر میری طرف سے نگران ہے۔ ( یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے )
دجال جوان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریا لے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ ابھری ہوئی اونچی ہوگی جیسے کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذ ا تم میں سے جو کو ئی اسے دیکھے اسے چاہیے کہ اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ ۔۔من کل حدب ینسلون ۔۔تک ( یعنی ان آیات سے رہنمائی لے)، دیکھو ! دجا ل کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا ،اور وہ زمین پر دا ئیں بائیں فسا د پھیلا تا پھرے گا،
(اس وقت ) اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا” ۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول !وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:” چالیس دن تک ، ایک دن ایک سال کے برابر ،دوسرا دن ایک مہینہ کے اورتیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، اور باقی دن تمہا رے عام دنوں کی طرح ہوں گے ”۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہما رے لئے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:” ( نہیں بلکہ ) تم اسی ایک دن کا اندا زہ کرکے نماز پڑھ لینا”۔
تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۱۳۷)، د/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۱)، ت/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۸۱، ۱۸۲) (صحیح)
یہ حدیث مبارکہ صحیح درجے کی ہے اگرچہ اس کے عربی متن میں چھوٹے چھوٹے ایک دو جملے کچھ کے نزدیک ضعیف ہیں ۔ جنہیں احتیاطاً بیان نہیں کیا گیا ۔
دجال کے دنوں سے مراد مختلف ادوار (intervals of time ) ہیں جیسے عربی اسلوب میں یوم کا لفظ ایک مخصوص دور کے لیے استعمال ہوتا ھے ۔ یہاں وہ دن مراد نہیں جس کے ابتداء میں سورج طلوع ہوتا ہے اور اختتام غروب آفتاب پر ہوتا۔
عراق و شام کے درمیانے راستے سے مراد عین ممکن ھے یہ ہو کہ عراق و شام کے لوگوں کے درمیان مختلف مسالک ، مذاہب یا سیاسی جھگڑوں کے نتیجے میں یہ فتنہ وجود میں آئے ۔
جبکہ دجال کے ظہور کے علاقے سے متعلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث اس طرح بھی ہے ۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالُوا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ،عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: ” أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ،يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ،يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ “۔
ترجمہ – حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی : ” دجال مشرق کے ایک ملک سے ظا ہر ہو گا، جس کو ”خراسان ” کہا جاتا ہے، (جو موجودہ ایران ھے ۔) اور اس کے سا تھ ایسے لو گ ہو ں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں”
مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے گول ،چپٹے اور گو شت سے پر اور موٹے ہوں گے۔
ت/الفتن ۵۷ (۲۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴، ۷) (صحیح)
شاید کہ ایران میں کبھی اٹھنے والے اس فتنے کی پشت پناہی چین کے لوگ بھی کریں۔ اور یہ فتنہ بھی اسی طرح جھوٹ ، دجل ، مکر و فریب میں شام اور عراق سے اٹھنے والے فتنہ سے مماثل اور ہم آہنگ ھو ۔ اور ان کی صفات مشترک ہوں ۔
جاری ہے