تحریر : ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ: 14 اگست 2022
کالم : مسیح الدجال
دجال کون ۔۔۔۔؟؟
دجال: احادیث کی نظر میں
دجال کی دعوت اور طریقہ کار
پچھلی قسط میں ہم نے دجال کے خروج کے علاقوں کا جائزہ لیا ۔
اب ہم دیکھیں گے اس فتنے کے خدو خال کیا ہوں گے ، انسانی معاشرے کے وہ کون سے پہلو ھیں جو دجال کا ہدف ہیں ۔ دجال کن راستوں سے اسلام پر حملہ اور ھو گا ۔
دجال کا ہدف چونکہ اسلام ہو گا اس لیے وہ اس کی بنیادوں پر حملہ اور ھو گا ۔ مثلا
1. ایمانیات : توحید ، رسالت اور آخرت ،
2. عبادات: نماز، روزہ، حج ، زکواۃ اور
3. معاملات : معیشت ، سیاست اور معاشرت وغیرہ ۔
دجال خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا ، اور نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا ۔
دجال کا کاری حملہ ایمانیات پر ہو گا ۔ جب تک مومن کی جڑیں اللہ پر غیر متزلزل ایمان سے جڑی ہیں دجال کا بس نہیں چلے گا ۔
دجال ، انسان کے نفس بہیمیہ کے راستے اس کے ایمان پر حملہ آور ہو گا۔ یہ راستے دو ھیں
بے حیائی ، ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ لقمہ حرام ۔
یہ دو مراحل طے کر لینے کے بعد دجال کا راستہ آسان ھو جاتا ھے ۔ متعدد احادیث مبارکہ میں فتنہ دجال کے ضمن میں ان دو پہلوؤں کا خصوصیت سے ذکر ہے کہ دجال کے ساتھ عورتوں کا لشکر ہو گا جس سے وہ نوجوانوں کے ایمان پر حملہ آور ہو گا ۔ اور دجال کی سواری بھی سونے چاندی کی لید کرے گی۔ اس کے ساتھ روٹی ( رزق و دولت) کا پہاڑ ہو گا ۔
دجال کا مومن پر دوسرا حملہ عقیدہ رسالت پر ہو گا ۔ کیونکہ عقیدہ رسالت ہی ہدایت کی بنیاد ہے ۔ اگر مسلمانوں کے اس عقیدے کو مشکوک یا کمزور کر دیا جائے تو مومن کے دین کا تعلق اللہ سے کٹ جاتا ہے اور دین کا من جانب اللہ ہونا خدشات کا شکار ہو جاتا ھے ۔
دجال کا دعوی نبوت :
حدیث مبارکہ میں یہ بات بڑی صراحت سے بیان کی گئی ھے کہ فتنہ دجال اور اس کے سرغنے نبوت کے بھی دعوے دار ھوں گے ۔ یہ سب دراصل دجال اکبر کے حواری اور سہولت کار ھوں گے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے
عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان فيكون بينهما مقتلة عظيمة دعواهما واحدة، ولا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريبا من ثلاثين كلهم يزعم انه رسول الله”.
(صحیح بخآری حدیث نمبر 3609 ۔۔۔ کتاب المناقب )
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔“
دجال کے دور میں دو طرح کی جنگیں ہوں گی ۔ ان جنگوں میں قتل و غارت گری بہت زیادہ ہو گی ۔
عن ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” يقبض العلم، ويظهر الجهل والفتن، ويكثر الهرج، قيل: يا رسول الله، وما الهرج؟ فقال: هكذا بيده، فحرفها كانه يريد القتل”.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی بخآری شریف کی ایک طویل حدیث اس طرح بھی ہے ۔ جن میں دور دجال کے حالات اور اس کے طریق واردات ، کا ذکر ذرا تفصیل سے ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں لیں ۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی۔ ( شاید جنگ عظیم اول اور دوم کا ذکر ہو جن میں پونے چھ کروڑ افراد لقمہ اجل بن گئے ) حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا ( یعنی دونوں کافر ہوں گی یا دونوں مادیت پرستی کے فلسفے پر لڑیں گی۔ مارکس ازم ) اور یہاں تک کہ بہت سے جھوٹے دجال بھیجے جائیں گے۔ تقریباً تیس دجال۔ ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے اور پھر علم اٹھا لیا جائے گا اور زلزلوں کی کثرت ہو گی اور زمانہ قریب (وقت تیز رفتار ) ہو جائے گا اور فتنے ظاہر ہو جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا اور ہرج سے مراد ( کثرت کے ساتھ ) قتل وغارت ہے اور یہاں تک کہ تمہارے پاس مال کی کثرت ہو جائے گی بلکہ بہہ نکلے گا۔ (یعنی ضائع ہونے لگے گا) یہاں تک کہ صاحب مال کو اس کا فکر دامن گیر ہو گا کہ اس کا صدقہ قبول کون کرے اور یہاں تک کہ وہ پیش کرے گا لیکن جس کے سامنے پیش کرے گا وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہاں تک کہ لوگ بڑی بڑی عمارتوں پر آپس میں برتری کی بنیاد پر فخر کریں گے۔ ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر عمارات بنائیں گے اور یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر سے گزرے گا اور کہے گا کہ کاش میں بھی اسی جگہ ہوتا ( کہ دنیا میں نا انصافی ، بے حیائی اور ظلم اس قدر بڑھ جائے گا ) اور یہاں تک کہ پھر سورج مغرب سے نکلے گا۔ پس جب وہ اس طرح طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ پہنچائے گا جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے ایمان کے ساتھ اچھے کام نہ کئے ہوں اور قیامت اچانک اس طرح قائم ہو جائے گی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا خرید و فروخت کے لیے پھیلا رکھا ہو گا اور وہ اسے ابھی بیچ نہ پائے ہوں گے نہ لپیٹ پائے ہوں گے اور قیامت یک دم اس طرح برپا ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ نکال کر واپس ہوا ہو گا کہ اسے پی بھی نہ پایا ہو گا اور قیامت اس طرح اچانک آ قائم ہو گی کہ ایک شخص اپنے حوض کو درست کر رہا ہو گا اور اس نے اس میں سے پانی بھی نہ پیا ہو گا اور قیامت اس طرح قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص نے اپنا لقمہ منہ کی طرف اٹھایا ہو گا اور ابھی اسے کھایا بھی نہ ہو گا۔
(حدیث نمبر 7131 صحیح بخآری )
یہ حدیث مبارکہ ، دجال کے فتنے کے باب میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ ہم ان شاءاللہ آئیندہ چند سطور میں اس حدیث مبارکہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے ۔
جاری ہے