Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عبدالرؤف۔۔۔(قسط نمبر21)

دجال : احادیث کی نظر میں ۔۔۔۔ الدجالون الکذابون ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔موضوع ۔۔۔دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ ​  قسط نمبر 21) پچھلی قسط میں ہم تاریخ کے دو بڑے جھوٹے دجالوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں ۔ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کرنے کی جسارت کر ڈالی۔ اور یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر نبوت میں حصہ بھی مانگ لیا ۔ اپنے معتقدین میں خود اپنے دجل کو ہوا دی اور بڑے فتنوں کا باعث بنے ۔ اپنی من گھڑت شریعتیں تک بنا ڈالیں۔ اور معجزات دکھانے کی جسارتیں بھی کیں ۔
یہ دو جھوٹے دجال ، کذاب یمامہ اور اسود عنسی تھے اور کذاب یمامہ مسیلمہ ، جنگ یمامہ میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا اور دوسرا ذاتی قبیح حرکتوں کی وجہ سے قتل ہوا ۔

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے ۔ وہ انسان کی نفسیات ، صلاحیتوں ، اور کمزوریوں سے گہری دلچسپی اور آگاہی رکھتا ھے ۔ اس کے پاس ہر شخص کو گمراہ کرنے کے طریقے مختلف ھیں ۔ شیطان کسی کو نفس کی حوس ، کسی کو علم ، کسی کو دولت ، کسی کو عہدے ، کسی کو پارسائی ، کسی کو چالاکی اور کسی کو سادگی کے اندر رہ کر گمراہ کرنے کے طریقے جانتا ھے ۔ شیطان سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالی محفوظ و مامون رکھے ۔ صرف انبیاء اللہ کی تائید اور حفاظت کی وجہ سے اس کے حملوں سے بچ سکتے ہیں ۔ شیطان طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے زاہدوں ، عالموں اور ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے اور انہیں طرح طرح کے داموں میں پھنسا کرگمراہ کرتا ھے ۔ کسی کو تکبر و نخوت پر ڈال کر ، کسی کو دولت کی حوس دے کر ، تو کسی کو ریا کاری کے ذریعے حرام میں ڈال دیتا ھے ۔ تصوف کے میدان والے وہ لوگ جو بے مہار ہوں وہ بھی جلد شیطان کا چارہ بنتے ہیں۔ شیطان ان میں سے کسی کو کہتا ھے تیرے معتقدین بہت زیادہ ہیں ۔ تو اللہ کی طرف سے غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے اس لیے تو مہدی موعود ہے ، کسی کے کان میں کہتا کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے ، کسی کو حلال و حرام کی پابندیوں سے مستشنٰی قرار دیتا ہے ، تو کسی کہ دل میں یہ القاء کرتا ہے کہ تو اللہ کا نبی ہے اور بدنصیب عابد اس پر یقین کر لیتا ہے۔ یہ شیطان کی نورانی شکل اور آواز کو سمجھتا ہے کہ یہ خود خداوند قدوس کا جمال اور کلام ہے جسے دیکھ اور سن رہا ہے۔ شیطان اسے سوتے میں خوب مزے دار اور خدائی کے خواب دکھاتا ہے۔
ان نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے ساتھ بھی ایسی ہی واردات ھوئی ۔ ان کے معتقدین بھی کمزور اعتقاد والے ، شیطان کے چیلے اور حواری ھوتے ہیں۔
اب ھم کچھ مزید جھوٹے دجالوں کے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہیں اور ان کے دجل کا طریق کار بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔
حارث دمشقی :
کذاب حارث بن عبد الرحمن بن سعید ۔۔۔ دمشقی۔۔۔ پہلے ایک شخص ابو جلاس عبدی قریشی کا غلام تھا۔ مالک کی وفات کے بعد آزاد ہوا تو یاد الہی میں تصوف کے راستے پر چلا ۔یہ دن رات عبادت میں مصروف رہنے لگا۔ بہت کم غذا کھاتا ۔ بہت نفس کا مجاہدہ کرتا ۔ کم سوتا، کم بولتا اور صرف ستر ڈھانپنے کی حد تک پرانے پیوند لگے کپڑے کا استعمال کرتا۔ اس کے زمانے میں عبادت و ریاضت میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اگر یہ زہد و ورع، ریاضت اور مجاہدے شریعت محمدی کے دائرے میں ھوتے تو کمال ہوتا ۔ لیکن شومئی قسمت، اس بے مہار زاہد کو معلوم نہ تھا کہ شیطان اس کا رہنما بن گیا ہے۔ اور وہ اس وقت تک کسی کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کہ اسے ضلالت و ہلاکت ابدی کے تحت قہر مذلت تک نہ پہنچا دے۔
یہ شخص کچھ کرامات بھی کرتا ، جنہیں اس کے ماننے والے معجزات نبوت سے تعبیر کرتے ۔

آج کے دور میں بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ کچھ لوگ آج بھی بعض خارق عادت چیزیں کر سکتے ہیں ۔ جن کا صدور دوسرے عام لوگوں سے نہیں ھو سکتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی کام پر سو فیصد توجہ دینے والا شخص اور جو شخص بھوکا رہے ، کم سوئے ، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے۔ جن کے لیے اللہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان افعال کی مثالیں ہمیں ٹیلی پیتھی ، یوگا کی مشقوں ، علم نفسیات کی کچھ افعال اور ہپناٹزم میں بھی ملتی ہیں ۔ ان خارق عادت کاموں کو انجام دینے والے اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراه یا بدعتی لوگ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہا جاتا ہے ۔ تعلق باللہ اور قرب الٰہی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں عام لوگ جانے یا انجانے میں گمراہی کے راستے اختیار کر لیتے ہیں ۔
حارث دمشقی بھی اپنے مجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسی خرافات کرتا تھا مثلا
وہ لوگوں سے کہتا کہ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو آتے جاتے دکھا سکتا ھوں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ بہت حسین و جمیل خوبصورت انسان گھوڑوں پر سوار آسمان کی طرف جار رہے ہیں۔
یہ شخص موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں کے موسم میں سردیوں کے پھل لوگوں کو کھلاتا۔
بہت لمبی لمبی عبادات کرتا جو دوسروں کے لیے ممکن نہ ہوتیں ۔
جب حارث نے شہرت اختیار کر لی اور لوگ جوق در جوق گمراہ ہوئے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مضبوط ایمان رکھنے والا دمشق ہی کا ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تم کس بات کے دعویدار ہو؟ حارث بولا میں الله کا نبی ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے ۔ حضرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازه ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔اس کے بعد اس شخص نے حارث کے دعویٰ نبوت اور دجل عظیم کی شکایت خلیفہء وقت عبدالملک بن مروان سے کی۔ عبدالمالک بن مروان نے حکم دیا کہ حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے لیکن گرفتاری سے پہلے ہی حارث بیت المقدس کی طرف فرار ہو گیا ۔ اور اپنی نبوت کا پرچار کیا اور لوگوں کو خوب گمراہ کرنے لگا۔
بصرہ کے ایک سمجھدار شخص نے خلیفہ کے جاسوس کے طور پر حارث سے ملاقات کی ۔ بعد ازاں خلیفہ نے چالیس جنگجو اس کے ساتھ بھیج دیے جو حارث کو قید کر کہ دمشق لے آئے ۔
راستے میں دو مرتبہ حارث نے اپنا شعبده دکھایا اور زنجیر ہاتھ سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑی۔
خلیفہ نے حارث سے پوچھا کیا واقعی تم نبی ہو؟ حارث بولا بے شک لیکن یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو میں کہتا ہوں وہ وحی الہی کے مطابق کہتا ہوں۔ خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو اشارہ کیا کہ اس کو نیزہ مار کے ہلاک کر دے۔ اس نے ایک نیزه مارا لیکن حارث پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جارث کے مریدوں نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کے اجسام پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ عبدالمالک نے محافظ سے کہا شاید تونے بسم اللہ پڑھ کر نیزه نہیں مارا۔ محافظ نے بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ نیزہ مارا جو حارث کے جسم کے پار ہو گیا اور وہ بری طرح چیخ مار کر گرا اور گرتے ہی ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح خود ساختہ نبی اور اس کی نبوت انجام کو پہنچی۔
میں نے اس کے قصے کو ذرا تفصیل سے اس لیے بیان کیا کہ اس میں سبق ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی خود ساختہ نام نہاد ولی کی چند جھوٹی شعبدہ بازیوں کو دیکھ کر انہیں کرامات الاولیاء اور معجزات کے لفظوں سے تعبیر کردیتے ھیں ۔ اور پھر ان کرامات سے متاثر ہو کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں پھر اندھی عقیدت کر کہ ایسے شیطانوں اور شیطان کے حواریوں کو زعم باطل میں مبتلاء کر دیتے ہیں ۔ جس سے وہ ولی اللہ ہونے ، مھدی ہونے اور حتی کہ نبی ہونے کا دعوی کر بیٹھتے ہیں ۔ ایسے لوگ بہت بڑی بڑی شعبدہ بازیاں دکھاتے ہیں ۔ لیکن ان کا موکل اور ان کا کارندہ شیطان یہ سب کچھ کر رہا ھوتا ھے ۔
اللہ تعالی ہر مسلمان کو ان خرافات سے محفوظ و مامون رکھے ۔
جاری ہے ۔۔

Loading